’’شیر کی زندگی کا ایک دن گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ یہ دلیرانہ قول سنتے ہی ٹیپوسلطان کا نام ذہن میں آتا ہے اورساتھ ہی میسور میں ہونے والی انگریزوں کے خلاف جنگوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جو کتابوں میں رقم ہیں۔ٹیپو سلطان ریاست میسور کے حکمراں تھے۔محب وطن تھے،انہیں اپنی سر زمین پر کسی غیر کا قبضہ نہ منظور تھا۔اس لیے وہ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور لڑتے ہوئے 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔
آخری معرکے میں ٹیپو سلطان شدید زخمی ہوکر قلعہ کے اندر گر پڑے۔ آخری سانسیں چل رہی تھیں کہ ایک انگریز سپاہی نے آگے بڑھ کر سلطان ٹیپو کی قیمتی تلوار قبضے میں لینا چاہی۔ عالم نزع میں ٹیپو نے اس قدر قاری ضرب لگائی کہ انگریز سپاہی کی گردن تن سے جدا ہوکر زمین بوس ہوئی۔ فاتح انگریز اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ اگلے تین دن تک کسی نے ٹیپو سلطان کے جسد خاکی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہ ٹیپو سلطان کی ہیبت تھی کہ دشمن انگریز مردہ ٹیپو سلطان سے بھی ڈرتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی بیشتر زندگی کا حصہ غداروں کے مقابلہ اورانگریزوں کے مذموم عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتے گزرا۔ وہ اپنی سرزمین کا ایک چپہ بھی سامراجیوں کو دینے کے حق میں نہ تھا۔ یہی وہ جذبہ اور حب الوطنی تھی کہ لوگ آج بھی ٹیپو سلطان کی عظمت کوسلام کرتے ہیں لیکن تاریخ بھی کیا کیا موڑ دکھاتی ہے۔ کہاں ٹیپو سلطان کی انگریزوں سے دشمنی اور کہاں اس عظیم ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نورعنایت خان ،جس نے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی تاج سے اپنی وفاداری نبھائی اور جنگ میں برٹش سپیشل آپریشن میں ایگزیکٹوایجنٹ کا کردار ادا کیا ۔فرانس میں بطورریڈیو آپریٹو کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ اتحادی فوجوں کیلئے جاسوسی کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ نور عنایت کی ڈیوٹی فرانس میں صرف چھ ہفتوں کیلئے تھی لیکن اس نے وہاں پانچ ماہ قیام کیا۔ اس نے اس جنگ میں باقاعدہ حصہ بھی لیا۔
اگرچہ اس کا یہ کام اس کی خاندانی وجاہت کے خلاف تھا لیکن نورعنایت کی ایک دلیل اس کے مقدمہ کومضبوط کرتی ہے اور وہ ہے کہ انسانیت کی خدمت کریں۔ انسانیت کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے ، مذہب اور تہذیب سے ہو۔ انسانیت کو تمام تر وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ہر کام کرنا چاہیے۔ سلطان فتح علی خان المعروف ٹیپو سلطان کی سرنگا پٹم میں 1799ء میں چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج سے شکست کو دو صدیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
سلطان نے ایک دلیرانہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا لیکن برطانوی اور مقامی افواج کااشتراک ان پرغالب آ گیااور وہ میدان جنگ میں دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔1857ء میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاتمے کے بعدہندوستان کے طاقتور مغل حکمرانوں کے خاندان پر نازل ہونے والی بدقسمتی کی طرح، ٹیپو سلطان کی اولاد کے متعلق بھی یہی کہا جاتاہے کہ وہ کلکتہ کے پسماندہ نواح میں جہاں ان کے آباؤاجداد کو جبراً بھیج دیا گیا تھا، غربت اور گمنامی میں محرومیوں سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔
سلطان کی اولاد میں سے ایک،شہزادی نور عنایت خان جو کہ ان کی پڑپوتی ہیں، نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ پر نازی قبضے کے خلاف لڑنے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی تھی۔وہ اتحادی افواج کے لئے ایک جاسوسہ کے طور پر کام کر رہی تھیں جب انہیں جرمن افواج نے گرفتار کر لیا اور ایک عقوبت خانے میں بھیج دیا جہاں انہیں خوب اذیت دی گئی اور ستمبر 1944ء میں پھانسی دے دی گئی۔
اپنے پڑ، پڑ،پڑداداکی روایت کو قائم رکھتے ہوئے، انہوں نے بہادری سے اذیتیں برداشت کیں اور جرمن افواج کے سامنے کبھی کوئی فوجی راز افشاء نہ کیا۔ انہیں1949ء میں ، بعد از مرگ، برطانوی حکومت کی جانب سے ملک کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز جارج کراس عطا کیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی ایک پوتی کی شادی بھارت کے اس وقت کے نامور موسیقار مولا بخش سے ہوئی تھی جسے راجہ کے دربار سے بہت انعام و اکرام ملا کرتے تھے۔ مولا بخش کا خاندان میسور سے بڑودہ جا کر آباد ہو گیا، جہاں اس نے موسیقی کی ایک تربیت گاہ قائم کی۔
اس میں پنجاب کے ایک نوجوان رحمت علی خاں نے داخلہ لیا جو کہ رفتہ رفتہ اس خاندان کے بہت قریب ہو گیا۔ مولا بخش کی ایک بیٹی خدیجہ بی بی کی شادی رحمت علی خاں سے ہو گئی۔ان کے ہاں نور النساء کے والد‘ عنایت خان کی پیدائش ہوئی۔ عنایت خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد اور تصوف میں فیض سید ہاشم مدنی سے حاصل کیا۔
اپنے استاد کے کہنے پر انھوں نے صوفی ازم کے فروغ کے لئے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کیا۔ امریکہ میں عنایت خان کی ملاقات اورا رے بیکر سے ہوئی جس کا تعلق ا مریکہ کے ایک نمایاں خاندان سے تھا۔ بعدازاں دونوں نے فرانس میں شادی کر لی اورا رے بیکر کو آمنہ بیگم کا نام دیا گیا۔ ان کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تو اس کا نام نورالنساء رکھا گیا جو بعد میں نور خان کے نام سے مشہور ہوئیں۔
نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کالڑکپن لندن میں گزرا تھا۔ پھر یہ خاندان فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے نور خان کا بچپن وہیں گزرا جہاں دوران تعلیم اس نے فرانسیسی زبان سیکھی۔ پھر طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم بھی لی ۔وہ منصفہ بھی تھیں۔1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب’’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘‘شائع ہوئی۔ جب 1939ء میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔
نومبر 1940ء میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے فوج میں بطور وائر لیس آپریٹر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔
لیکن جب خفیہ سروس میں بھرتی کے لئے انٹرویو ہوا تو نور عنایت نے انگریز افسر سے صاف صاف کہہ دیا کہ فی الحال ہمارے سامنے ایک مشترکہ دشمن نازی جرمنی کی شکل میں موجود ہے لیکن نازی ازم کا خاتمہ ہوتے ہی میں آزادیء ہند کے لئے انگریزوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہوجاؤں گی۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔
اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے وقت بلومز بری میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنوں کی قید میں انتہائی اذیت ناک حالات میں اس جہان سے رخصت ہوئی
۔1943ء میں نازیوں نے اِن جاسوسوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ نورالنساء کے تمام ساتھی گرفتار ہوگئے اور پیرس میں اتحادیوں کے لیے پیغام رسانی کی تمام تر ذمہ داری اس نوجوان خاتون پر آن پڑی لیکن آخر کار جرمن خفیہ سروس گستاپو نے نور کو بھی آن لیا۔نازی پنجے کی گرفت میں آنے کے بعد نور کا حوصلہ مزید مضبوط ہوگیا اور رازگلوانے کے سارے نازی ہتھکنڈے ناکام ہوگئے۔
نور کی زبان کھلوانے کے لئے اسے جو جو اذیتیں دی گئیں ان کا اندازہ اس امر سے ہوجاتا ہے کہ جنگ کے بعد نازیوں پر چلنے والے جنگی جرائم کے مقدّمے میں گستاپو کے متعلقہ افسر، ہانس جوزف کیفر سے نورالنساء کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تو سنگدل افسر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نور کو 27 نومبر کو جرمنی میں فورزہائم جیل بھیج دیا گیا‘ جہاں اس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 11 ستمبر 1944ء کو نور اور اس کے ساتھیوں کو میونخ کے قریب واقع ایک دوسرے کیمپ میں بھیجنے کے لئے روانہ کیا گیا‘ جہاں دو دن بعد پہلے اس کی تینوں ساتھی ایجنٹوں اوربالآخر انہیں تیرہ ستمبر1944ء کو قتل کر دیا گیا۔
مرنے سے پہلے نور نے بلند آواز میں ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اسی رات اس کی ماں اور بھائی نے خواب میں یونیفارم میں ملبوس نور النساء کو دیکھا‘ جو انھیں بتا رہی تھی کہ اب وہ آزاد ہو چکی ہے۔ فرانس میں اس کے گھر کے نزدیک ایک چوک کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور ہر سال اس کی یاد میں تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے ۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔