تحریر(جاوید چوہدری) زیروپوائنٹ
میں منگل صبح دس بجے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہوا‘ جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے اور ان کے دائیں بائیں دو‘ دو ممبر بیٹھے تھے‘ جنرل ندیم بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے کمیشن سے عرض کیا ’’میں بیس سال سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوں‘ میں نے ان بیس برسوں میں حکومتیں بنتے بھی دیکھیں‘ حکومتیں ٹوٹتے بھی دیکھیں‘ مارشل آتے اور مارشل لاء جاتے بھی دیکھا‘ عدلیہ کو معطل ہوتے بھی دیکھا اور عدلیہ کو بحال ہوتے بھی دیکھا۔ میں تاریخ کا طالب علم بھی ہوں‘
مجھے اس ملک کی 64 سالہ تاریخ بھی ازبر ہے‘ میں اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر آج بڑے دعوے سے کہہ سکتا ہوں اس ملک میں احتساب نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ ہمارے ملک میں پل ٹوٹ جائے یا ملک تقسیم ہو جائے‘ سیلا ب آ جائیں یا ٹرینیں آپس میں ٹکرا جائیں‘ بم دھماکے ہو جائیں یا این آر او کے بدبودار پوتڑے کھل جائیں‘ اس ملک میں کوئی شخص اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا‘ ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ بھی موجود نہیں جو خرابیوں کے ذمہ داروں کو پکڑ سکے چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ کچھ بھی کر لیں کوئی ادارہ آپ پر ہاتھ نہیں ڈالے گا‘‘ میں نے کمیشن سے عرض کیا ’’ہماری اس خامی‘ ہماری اس کمزوری سے امریکا سمیت پوری دنیا واقف ہے‘ دنیا جانتی ہے اگران لوگوں نے ملک توڑنے والوں کو نہیں پکڑا تو یہ ملک پر حملہ کرنے والوں کو بھی نہیں روکیں گے چنانچہ امریکی فوج نے دو مئی کو پاکستان میں گھس کر ایبٹ آباد آپریشن کیا اور 26نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 26جوان اور افسر شہید کر دئیے۔ مجھے یقین ہے اسامہ بن لادن بھارت میں ہوتا‘ یہ ایران‘ تاجکستان یا ازبکستان میں ہوتا‘ یہ یمن‘ سوڈان یا صومالیہ جیسے ملکوں میں ہوتا تو امریکا وہاں کبھی ایسا آپریشن نہ کرتا‘ یہ مقامی حکومت کی سپورٹ کے بغیر کبھی وہاں قدم نہ رکھتا‘
یہ صرف پاکستان ہے جہاں امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اترے‘ آپریشن کیا‘ اطمینان سے واپس لوٹے اور ہمیں اگلے دن امریکا نے بتایا یہ پاکستان آ کر اسامہ بن لادن کو مار کر اور اس کی نعش اٹھا کر واپس آ گئے ہیں اور آپ ہماری بے بسی دیکھئے ہم سات ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ذمہ داری فکس نہیں کر سکے۔ ہم نے سیکورٹی کے اتنے بڑے فیلئرپر ایس ایچ او تک کا تبادلہ نہیں کیا‘ مجھے یقین ہے اگر یہ واقعہ بھارت میں ہوا ہوتا تو وہاں اب تک ’’را‘‘ کے چیف سے لے کر آرمی چیف تک اور
وزیر دفاع سے لے کر وزیراعظم تک فارغ ہو چکے ہوتے جبکہ ہم ابھی تک جوتے تلاش کر رہے ہیں‘‘ میں نے کمیشن سے عرض کیا ’’میں چالیس سال کا ہو چکا ہوں‘ میں آدھی سے زائد زندگی گزار چکا ہوں‘ میں آج آپ کے سامنے بیٹھ کر محسوس کر رہا ہوں ہم نے اگر اس ملک میں احتساب کی روایات قائم نہ کیں تو خدانخواستہ یہ ملک ہماری زندگی میں ٹوٹ جائے گا‘ ہم باقی زندگی افغانستان جیسے ملکوں کے مہاجر کیمپوں میں گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ہم قدرت کی طرف سے اس سلوک کے پورے پورے مستحق ہیں‘‘۔
میری گفتگو کے بعد کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے پوچھا ’’آپ کمیشن سے کیا توقع رکھتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب یہ حمودالرحمان کمیشن کے بعد پاکستان کی تاریخ کا دوسرا کمیشن ہے‘ ہم توقع کرتے ہیں آپ کے کمیشن کی رپورٹ جلد قوم کے سامنے آئے گی‘ آپ اس رپورٹ میں اس قومی سانحے کے ذمہ داروں کا تعین کریں گے اور ہماری تاریخ میں پہلی بار ہی سہی لیکن احتساب ہو گا‘‘ جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا ’’ہم محض کمیشن ہیں‘ ہم صرف رپورٹ تیار کر سکتے ہیں‘
ہم کسی کو سزا نہیں دے سکتے‘ ہم آئین کے مطابق رپورٹ تیار کریں گے اور یہ رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دیں گے‘ اس پر عملدرآمد حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے‘ قوم کو رپورٹ پر عملدرآمد کیلئے پارلیمنٹ اور حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی بات درست ہے لیکن جہاں تک آپ کی ذمہ داری ہے آپ کو یہ ذمہ داری پوری طرح نبھانی چاہئے‘ آپ کی رپورٹ کلیئر ہونی چاہئے‘ اگر آپ کی رپورٹ گول مول ہو گی‘ آپ نے بھی سسٹم کو ذمہ دار ٹھہرا دیا اور آپ نے بھی گیند دوبارہ حکومت کی کورٹ میں پھینک دی تو پھر قوم کو بہت مایوسی ہو گی‘‘۔
جسٹس جاوید اقبال نے اس کے جواب میں فرمایا ’’آپ ہماری طرف سے اطمینان رکھیں‘ ہماری رپورٹ انتہائی شفاف‘ سیدھی اور واضح ہو گی اور ہم بلا خوف اور بلارعایت ذمہ داروں کا تعین کریں گے‘‘ جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا ’’تاہم قوم کو ذرا سا صبر سے کام لینا ہوگا‘ ہمارے پاس اسامہ بن لادان کے گھر سے ملنے والے کاغذات ہیں‘ یہ ایک لاکھ ستاسی ہزار صفحات ہیں‘ یہ زیادہ تر عربی میں ہیں‘ ان میں اسامہ بن لادن کی ڈائریاں بھی ہیں‘ ہم ان کا ترجمہ کرا رہے ہیں‘
یہ دستاویزات بھی ہماری رپورٹ میں شامل ہوں گی‘ امریکی فوجی بھی اسامہ کے گھر سے بے شمار ثبوت ساتھ لے گئے‘ ہم کوشش کر رہے ہیں ہمیں وہ مواد بھی مل جائے‘ ہم اسے بھی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں اس میں وقت لگے گا لیکن اس تاخیر کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہو گا ہم کسی کے ساتھ رعایت کر رہے ہیں‘‘ میں نے جسٹس صاحب سے عرض کیا ’’آپ کے نوٹس میں آ چکا ہوگا اسامہ بن لادن روزانہ ڈائری لکھتے تھے‘ وہ روزانہ کا حساب بھی تحریر کرتے تھے‘ ان کی کسی ڈائری میں ایبٹ آباد کے ایک پٹواری کا نام درج ہے‘
اس پٹواری نے اس گھر کی تعمیر کے دوران اسامہ بن لادن کے بندے سے پچاس ہزار روپے رشوت لی تھی‘ گویا ہمارے پٹواری اس قدر کاریگر لوگ ہیں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن سے بھی رقم وصول کر لی‘‘ جسٹس جاوید اقبال نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’پٹواریوں نے تو صدر ایوب خان کو بھی نہیں بخشا تھا‘‘ جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا ’’ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں‘ ہم دن رات کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں سیاستدانوں اور عوام کی طرف سے سپورٹ نہیں مل رہی‘
دو مئی کے واقعے کے بعد سیاستدانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں سے لے کر جنرل پبلک تک ہر شخص نے ٹیلی ویژن پر بڑے بڑے تبصرے کئے تھے لیکن جب ہم نے انہیں کمیشن کے سامنے بلایا تو انہوں نے پیش ہونے سے انکار کر دیا‘ ہم نے صدر آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے‘ میاں نواز شریف‘ چودھری شجاعت حسین‘ الطاف حسین‘ عمران خان‘ منور حسن‘ مولانا فضل الرحمان اور سلیم سیف اللہ تک کو دعوت دی لیکن اسفند یار ولی کے علاوہ کوئی سیاستدان کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا‘‘
جسٹس جاوید اقبال نے شکوہ کیا ’’ہم نے ایڈیٹر اور کالم نگاروں کو بھی بلایا لیکن 95 فیصد نے معذرت کر لی‘ ہم نے ایبٹ آباد جا کر مقامی لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے ہمارے سامنے منہ کھولنے سے انکار کر دیا‘‘۔جسٹس جاوید اقبال نے بتایا ’’ہم نے انکوائری شروع کی تو معلوم ہوا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘ ادارے ختم ہو رہے ہیں اور جو باقی بچے ہیں ان کی شکست و ریخت کا عمل انتہا کو چھو رہا ہے‘ ہم نے انکوائری کے دوران علاقے کی سیکورٹی کے ایک ذمہ دار کا انٹرویو کیا‘
اس نے بتایا وہ شام ڈیوٹی کے بعد گھر چلا گیا تھا اور اس کا گھر علاقے سے دو تین گھنٹے کے فاصلے پر تھا‘ ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا حکومت کے پاس اس کیلئے رہائش گاہ ہی نہیں لہٰذا یہ ڈیوٹی کے بعد کہاں جائے۔ ہمیں معلوم ہوا واشنگٹن اور لندن میں موجود ہمارے سفارتخانے کے اہلکاروں نے ہزاروں کی تعداد میں ویزے جاری کر دئیے تھے‘ ان ویزوں کیلئے پروسیجر کا خیال نہیں رکھا گیا لہٰذا پاکستان میں سینکڑوں کے حساب سے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ موجود ہیں‘
انہوں نے صرف پوش علاقوں میں گھر نہیں لے رکھے بلکہ یہ کچی آبادیوں میں بھی مقیم ہیں۔ ہم نے کیری لوگر بل پڑھا تو پتہ چلا بل کی ایک شرط کے ذریعے پاکستان امریکا کو ملک میں جاسوسی کا پرائیویٹ نیٹ ورک بنانے کی اجازت دے چکا ہے اور ہم اب اگر ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کا نکالنا بھی چاہیں تو نہیں نکال سکیں گے‘ یہ اجازت کیوں دی گئی؟ یہ جان بوجھ کر دی گئی یا پھر کسی نے کیری لوگر بل پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی‘
ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود آپ کو یقین دلاتے ہیں‘ کمیشن کی رپورٹ بھی آئے گی اور ہم ذمہ داروں کا تعین بھی کریں گے‘‘ میں نے جسٹس جاوید اقبال اور کمیشن کے ارکان سے عرض کیا ’’سر پوری قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ نے اگر یہ موقع کھو دیا تو ہم پاکستان کو ٹریک پر لانے کا آخری چانس گنوا بیٹھیں گے اور آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے‘‘۔
یہ کالم 4,1,2012کو شائع ہوا