یہ 1981 کی بات ہے جب میں کراچی یونیورسٹی میں ایپلائیڈ فزکس میں پہلے سمسٹر میں تھا جہاں مجھے شروع میں بہت سے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلا یہ کہ میں نے ابتدائی تعلیم اردو میں حاصل کی تھی اس لیے میرے لیے انگریزی میں پڑھنا اور بولنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایپلائیڈ فزکس میں کوئی شوق نہیں تھا، یہ مضمون میں نے اس لیے چنا تھا تاکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نوکری ملنے کے زیادہ مواقع مل سکیں۔
اس وقت میں اس کشمکش میں تھا کہ مجھے ماسٹرز ریاضی میں کرنا چاہیے جو کہ میرا پسندیدہ مضمون تھا یا اپنی تعلیم چھوڑ کر نوکری کی تلاش کی جائے۔ مجھے ریاضی میں ماسٹرز کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس وجہ سے میں کئی دن تک بے چین رہا ۔ کبھی کبھا ر زندگی میں کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔آخر کار میں نے اپنے پسندیدہ استاد ریاض سے مشورہ کرنے کا سوچا۔ وہ میرے ہائی سکول کا استا د رہ چکا تھا اور سر نے بغیر کسی معاوضے کے ہمیشہ میری مدد کی تھی۔ جب میں نے سر ریاض سے اپنے مسئلے پہ بات کی توسر نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ظفر ، تم اپنا مضمون ایپلائیڈ فزکس لے سکتے ہو لیکن تم اس میں ماسٹرز کبھی پورا نہیں کر سکو گے۔میں حیرانی سے سر کو دیکھنے لگا اور پوچھا؛ سر آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کے قابل شاگردوں میں سے ہوں، پھر میں ریاضی میں ماسٹرز کیوں نہیں کر سکوں گا۔ سر ریاض نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میرے سوال کا جواب دیا؛ کیونکہ تم نے صرف پیچھے ہٹنا سیکھا ہے اور جب کوئی شخص پیچھے ہٹنا سکھتا ہے تووہ کبھی زندگی کے کسی شعبے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ سر کی یہ بات میرے دل کو لگی، اور مجھے احساس ہونے لگا کہ میں واقعی مشکل حالات سے دور بھاگنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں حالات کا مقابلہ کیے بغیر ہار مان رہا تھا۔ میں نے سر کی طرف دیکھا اور کہنے لگا،
سراب میں ایپلائیڈ فزکس میں ماسڑز کروں گا اور ڈگری لے کے رہوں گا۔دو سال کے بعد میں نے ماسٹرز اچھے نمبروں سے پورا کیا۔ اس سے پہلے میں کبھی ایپلائیڈ فزکس نہیں پڑھی تھی اور نہیں مجھے کبھی شوق ہوا تھا، لیکن سر ریاض کی ایک نصیحت کہ مشکل حالات سے کبھی پیچھے نہ ہٹوسے میں نے سبق حاصل کیا جس کی وجہ سے میں اپنی زندگی میں کامیاب ہوگیا۔