جمعہ‬‮ ، 19 ستمبر‬‮ 2025 

محدود وسائل

datetime 31  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک دفعہ میں اور میرے کچھ کو لیگ مل کر جرمنی کادورہ کر رہے تھے، ہم ھیم برگ میں تھے، وہاں ایک ریسٹو رنٹ میں گئے۔ دیکھا تو زیادہ تر میز خالی پڑے تھے، لوگ بیٹھے تھے مگر کھانا نہیں پڑا تھا۔ ایک جوڑے کو دیکھا تو ان کی میز پر بھی ایک ایک ڈرنک پڑی تھی اور دو پلیٹوں میں تھوڑا سا کھانا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ کتنا کنجوس آدمی ہے، دیکھتے ہیں یہ حسینہ کتنا وقت اس کے ساتھ برباد کرتی ہے۔ آگے دیکھا تو ہماری ساتھ والی ٹیبل پر بہت سی بوڑھی عورتیں بیٹھی تھیں اور خوشگپیوں میں مصروف تھیں۔

ان کے ٹیبل پر بھی بہت قلیل مقدار میں کھانا پڑا تھا۔ خیر ہم سب بیٹھے اور ڈھیر ساری ڈشیں آرڈر کر دیں۔سب کو بھوک لگی تھی، ڈٹ کر کھایا، کھانا بہت شاندار تھا۔ لیکن پھر بھی دو تہائی کھانا بچ گیا۔ ہم نے بل ادا کیا اور ہوٹل سے اٹھنے لگے تو ان میں سے ایک بڑھیا نے غصے میں بولا کہ یہ کیا بد تمیزی ہے، انگریزی میں بول رہی تھی کہ آپ لوگوں نے اتنا کھانا ضائع کیوں کر دیا۔ میں نے غصے میں جواب دیا کہ آنٹی آپ کو کیا ہے، اپنے کام سے کام رکھیں، ہمارا پیسہ لگا ہے، ہماری مرضی ہم کتنا کھائیں۔ وہ اور بھڑک گئی اور موبائل اٹھا کر کسی کو کال ملائی۔ ایک آن میں ایک سوشل سیکیورٹی گارڈ یونیفارم میں نمودار ہوا ہماری ٹیبل دیکھی اور جیب سے ایک فائن نکال کر مجھے تھما دیا، میں نے دیکھا تو وہ ایک بل تھا کہ کھانا ضائع کرنے پر آپ کو پچاس یورو فائن کیا جاتا ہے،جر منی کی گورنمنٹ۔۔میں حیران ہو گیا، میرے کولیگز کے بھی منہ کھلے تھے ، اب ہمیں سمجھ آیا کہ ادھر کی پالیسی یہ تھی کہ کھانا اتنا ہی منگوائیں جتنا آپ ختم کر سکتے ہوں۔جب ہم ادھر سے نکلے تو گارڈ نے آکر بولا کہ جرمنی کی حکومت کا موٹو ہے کہ : پیسے آپ کے ہیں مگر نیچرل ریسورسز پوری سوسائیٹی کے ہیں اور آپ ان کو خرید کر ضائع کرنے کا حق نہیں رکھتے، باقیوں کی بھی فکر کریں۔ ہم شرمندگی سے ادھر سے چلے گئے اور پھر جب ہم نے آپس میں تبادلۂ خیال کیا تو ہم سب کو لگا کہ اگر ایک اتنے امیر کبیر ملک میں اپنے ذرائع اس طرح ضائع ہونے سے بچائے جاتے ہیں تو ہم پاکستانی تو ایک تھرڈ ورلڈ کنٹری ہیں، ہمارے پاس تو اتنے وسائل ہیں ہی نہیں اور پھر بھی ہم کتنے گھمنڈ سے اپنے ہوٹلوں، شادیوں اور قومی اسمبلیوں میں کھانا اس طرح ضائع کرتے ہیں جیسے باپ کا مال ہو۔ اللہ ہمیں بھی توفیق دے۔پیسے ضرور آپ کے ہیں مگر ان محدود وسائل پر پوری قوم کا حق ہے، اپنے پیسے سے ہمارے وسائل ضائع مت کریں۔



کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…