میں ابھی اےئر پورٹ پر اترا ہی تھا، اپنے آرمی کے یونافارم میں ملبوس تھا کہ ایک چھوٹی سی بچی نے میرا ہاتھ پکڑ کو بولا: انکل انکل آپ واپس محاذ پر کب جائیں گےَ میں نے جواب دیا کہ بچے چھے ہفتے بعد، وہ بولی: انکل میری ماما کہتی ہیں کہ میرے ابو اب ادھر سے کبھی واپس نہیں آئیں گے، پلیز ان کو میرا سلام دینا۔ابھی میں دھڑام سے پھسل کر نیچے گرا ہی تھا کہ ہسپتال کا ایک مریض جو وہیل چےئر پر بیٹھا تھا، میرا سر نیچے لگنے سے پہلے، بولا:
بالکل اسی طرح مین بھی اسی ہسپتال میں تین مہینے پہلے گرا تھا، اور بے ہوش ہو گیا تھا۔ آج تک وہیل چےئر پر ہوں۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔آج پاپا نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور ان کی جو بات میرے دل کو سب سے زیادہ لگی وہ یہ تھی: بیٹے جو آپ کو بہتر لگتا ہے آپ کرو آپ کی اپنی مرضی ہے لیکن یاد رکھنا کہ کسی چیز کے لیے کبھی ہمت نہ ہارنا، امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اوکے؟۔۔۔اگر آپ کو یہ لگے کہ آپ کا تجربہ کم ہے تو یاد رکھو کہ گوگل اور ایپل بنانے والے کوئی پروفیشنلز نہیں تھے ، میری اور آپ کی طرح کے عام ایمیچورز تھے۔ اور ٹائیٹینک بنانے والے پروفیشنل تھے، وہ کیسے ڈوب گئی تھی۔آج سے ٹھیک بیس سال قبل میں نے ایک ڈوبتی عورت کو کولاراڈو ریور میں ڈوبنے سے بچایا تھا اور آج وہ میری بیوی ہے، بیس سال سے میں اس سے بو حد محبت کرتا ہوں۔آج میں نے اپنے مینٹور سے پوچھا کہ آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟۔۔انھوں نے بولا: تین باتیں یاد رکھو: وہ پڑھو جو کوئی اور نہ پڑھ رہا ہو، وہ سوچو جو کوئی اور نہ سوچ رہا ہو اور وہ کرو جو کوئی اور نہ کر رہا ہو۔ کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔آج میں نے اپنی ایک سائیکالوجی کی اسائنمنٹ کے لیے اپنی دادی سے پوچھا کہ اپنے الفاظ میں بتائیں کہ کامیابی کیا ہے؟ وہ بولیں کہ جب انسان اپنی پچھلی زندگی کی طرف دیکھ کر اپنی پرانی یادوں پر مسکرا سکتا ہو تو یہی اصل کامیابی ہے۔ یادوں کو دولت سے نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ انمول ہوتی ہیں اور انسان کو بہت سکون اور طاقت بخشتی ہیں۔ کوشش کرو کہ اچھی یادیں بناؤ، نہ کہ ایسی تلخ یادیں کہ جب پیچھے نظر دوڑاؤ تو دکھوں سے آنکھیں اشک بار ہو جائیں۔