وجود باری وزارت خزانہ حکومت پاکستان کے سیکرٹری اور نیشنل بینک آف پاکستان کے سابقہ مینجنگ ڈائریکٹر ممتاز حسن طالب علمی کے زمانہ میں اکثر علامہ اقبال سے ملنے جاتے۔ ایک دفعہ حاضر ہوئے اور موقع پا کر اقبال سے بولے ”آپ ایک دانشور فلسفی ہیں اور نہ صرف یہ کہ قدیم و جدید فلسفیوں سے آگاہ ہیں بلکہ اپنی جگہ خود بہت بڑے مفکر ہیں۔ مگر اس کے باوجود آپ اپنے اشعار میں خدا کا ذکر بڑے غیر فلسفیانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
اس بات پر تمام صاحبان علم و دانش متفق ہیں کہ عقل و فلسفہ کی رو سے نہ تو خدا کے وجود کا اثبات ممکن ہے اور نہ اس کی تردید۔ آپ اتنے بڑے فلسفی ہیں پھر آپ کیلئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کے وجود پر عقلی دلیل لانے کے بجائے خوش اعتقادی کے ساتھ اس کا ذکر کریں۔“ علامہ اقبال ممتاز حسن کے خیالات بڑی خاموشی اور ہمدردی کے ساتھ سنتے رہے۔ انہوں نے نہ تو درمیان میں ٹوکا اور نہ ہی تعجب کا اظہار کیا۔ جب ممتاز اپنی بات پوری کر چکے تو علامہ نے فرمایا: ”خدا کے متعلق پوچھتے ہو؟ میں نے اسے دیکھا ہے“ علامہ اقبال زیر لب مسکرائے اور تھوڑے سے توقف کے بعد مزید فرمایا: ”انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں، جب وہ خدا کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ لمحے کم نصیب ہوتے ہیں۔“ اور کچھ توقف کے بعد پھر فرمایا ”بہت ہی کم۔“ علامہ اقبال نے فرمایا: ”یہ دروازہ کسی پر بند نہیں ہے، لیکن جو شخص مشاہدے کا طالب ہو، اسے صبرو انتظار لازم ہے۔“