امین گیلانی صاحب لکھتے ہیں:’’مولانا نور الحسن صاحب بخاری مرحوم تحریر فرماتے ہیں او رراقم الحروف نے بھی یہ واقعہ خود حضرت عطاء اللہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی زبانی سنا کہ خیرالمدارس جالندھر کے جلسہ میں شریک تھے۔ کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے تو سامنے ایک نوجوان بھنگی کو دیکھا،
شاہ جیؒ نے کہا ’’آؤ بھائی جی کھانا کھا لو‘‘ اس نے عرض کیا ’’جی میں تو بھنگی ہوں‘‘ شاہ جی نے درد بھرے لہجہ میں فرمایا، ’’انسان تو ہو اور بھوک تو لگتی ہے‘‘ یہ کہہ کر خود اٹھے، اس کے ہاتھ دھلا کر ساتھ بٹھا لیا ، وہ بیچارا تھر تھر کانپتا تھا اور کہتا جا رہا تھا کہ ’’جی میں تو بھنگی ہوں‘‘ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ نے خودلقمہ توڑا، شوربے میں بھگو کر اس کے منہ میں دے دیا۔ اس کا کچھ حجاب دور ہوا تو شاہ جی نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا، اس نے جب آدھا آلو دانتوں سے کاٹ لیا تو باقی آدھا خود کھا لیا، اسی طرح اس نے پانی پیا تو اس کا بچا ہوا پانی خود پی لیا، وقت گزر گیا، وہ کھانے سے فارغ ہو کر غائب ہو گیا، اس پر رقت طاری تھی، وہ خوب رویا، اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔ عصر کے وقت اپنی نوجوان بیوی جس کی گود میں ایک بچہ تھا لے کر آیا اور کہا ’’شاہ جی! اللہ کے لئے ہمیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیجئے‘‘ اور میاں بیوی دونوں اسلام لے آئے۔