ابوعمرالزاہد جو غلام ثعلب (ثعلب کے غلام) کے لقب سے مشہور تھے اپنے حیرت انگیز حافظہ کی بناء پر بڑی شہرت رکھتے تھے۔ اسی بے پناہ قوت یادداشت کی وجہ سے ان کو اہل ادب کی تیغ ستم کا ہدف بننا اور علم لغت میں ان کی سند ثقاہت سے محروم ہونا پڑا جبکہ طبقہ محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا تھا،
ان کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد کے کچھ لوگ ان پر لگائے گئے جھوٹ کے الزامات کا تذکرہ کرتے ہوئے راستے کے ایک پل سے گزرے تو ان میں سے ایک نے کہا، ایسا کرتے ہیں کہ قنطرۃ (پل) کے لظ کو الٹ کر اوراس کے بے معنی اور مہمل بنا کر اس کے معنی ابوعمر سے دریافت کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا جواب دیتے ہیں، جب ان کے پاس پوہنچے تو اس شخص نے کہا ’’حضرت! عرب کے ہاں ’’ہرطنق‘‘ کیا شے ہے؟ اس نے کہا ’’فلاں چیز ہے اور اس طرح ہوتی ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے کیونکہ یہ تو ایک مہمل لفظ انہوں نے اپنی طرف سے گھڑا تھا جس کے کوئی معنی نہیں تھے اور وہاں سے چلے آئے۔ تقریباً ایک مہینے بعد پھر انہوں نے کسی دوسرے شخص کہ ’’ہرطنق‘‘ کے معنی دریافت کرنے اس کے پاس بھیجا تو اس نے کہا ’’کیا یہ وہی لفظ نہیں جو فلاں دن فلاں موقع پر مجھ سے پوچھا گیا تھا‘‘ پھر اس نے بعینہ والا جواب دیا۔ یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس کی حیرت انگیز قوت حافظہ پر تعجب کریں اگر اس نے سچ کہا ہے یا اس کے خوبصورت جھوٹ پر اگر اس نے جھوٹ کہا ہے۔