قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حال و احوال معلوم کرنے کے لئے بھیجا۔ جب وہ قاصد مدینہ آیا تو دیکھا کہ یہاں تو کوئی محل وغیرہ نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی گھر ہے جس سے پتہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ رہتا ہے۔ مدینہ کے لوگوں سے پوچھا ’’تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟‘‘
لوگوں نے کہا کہ ہمارا بادشاہ تو کوئی نہیں ہے، ہاں البتہ ہمارے ایک امیر ہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر کہیں گئے ہوئے ہیں۔ وہ قاصد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلا تو ایک جگہ دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زمین کو فراش بنائے ایک درخت کے سایہ میں سو رہے ہیں، اپنا سر اپنے درہ پر رکھا ہے اور آس پاس کوئی پہرے دار بھی نہیں ہے۔ جب اس نے یہ حالت دیکھی تو دل میں ہیبت بیٹھ گئی، یہ ایسا آدمی ہے کہ بادشاہوں کو اس کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے چین نہیں آتا، اور اس کی ظاہری حالت یہ ہے! اے عمر رضی اللہ عنہ واقعی تو نے لوگوں میں عدل قائم کیا ان کو امن دیا تبھی تو آرام کی نیند سو رہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے، ہر وقت خوف اس کے سر پر سوار رہتا ہے، راتوں کو نیند نہیں آتی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین، دین حق ہے۔ اگر قاصد بن کر نہ آیا ہوتا تو ضرور اسلام لے آتا، البتہ میں واپس جا کر مسلمان ہو جاؤں گا۔