ایک شخص نے فضل بن ربیع کے نام کا جعلی خط تحریر کیا، جس میں اپنے لئے ایک ہزار دینار کا حکم جاری کر کے دستخط کئے گئے تھے وہ شخص خط لے کر فضل بن ربیع کے خزانچی کے پاس پہنچا، اس نے خط پڑھ ڈالا مگر اسے کوئی شبہ نہ گزرا، وہ ایک ہزار دینا،
اس کے سپرد کرنے ہی لگا تھا کہ اس دوران فضل بن ربیع کسی کام سے خود وہاں آ پہنچا، خزانچی نے اس شخص کا تذکرہ اس کے سامنے کیا اور خط بھی دکھا دیا، فضل بن ربیع نے خط دیکھنے کے بعد ایک نظر اس شخص کے چہرے پر ڈالی تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا اور خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا، فضل بن ربیع سر جھکا کر کچھ دیر سوچنے کے بعد خزانچی سے مخاطب ہوا، ’’تمہیں معلوم ہے میں اس وقت تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟‘‘ خزانچی نے نفی میں گردن ہلا دی، فضل بن ربیع نے کہا، ’’میں تمہیں صرف یہ تاکید کرنے آیا ہوں کہ اس شخص کو رقم فوراً ادا کر کے اس کی ضرورت پوری کرو‘‘ خزانچی نے فوراً ہزار دینار تھیلی میں ڈال کر اس شخص کے سپرد کر دیئے، وہ شخص ہکا بکا رہ گیا، گھبراہٹ کے عالم میں کبھی تو وہ فضل بن ربیع کے چہرے کو دیکھتا اور کبھی خزانچی کے، فضل بن ربیع قریب ہو کر اس سے مخاطب ہوا، گھبراؤ نہیں اور راضی خوشی گھر کا رخ کرو، اس شخص نے فرط جذبات سے فضل بن ربیع کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا، ’’آپ نے میری پردہ پوشی کی اور رسوا نہ کیا، روز قیامت اللہ آپ کی پردہ پوشی فرمائے اور رسوائی سے بچائے‘‘ یہ کہہ کر اس نے دینار لئے اور نکل آیا۔