جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ شام آئے تو اہل کتاب میں سے ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا’’اے امیرالمومنین! آپ دیکھ رہے ہیں کہ کسی مسلمان نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ زخمی حالت میں تھا اور اس کو زدوکوب کیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدید غضبناک ہوئے اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جاؤ! دیکھو اس کو کس نے مارا ہے؟
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ گئے تو پتہ چلا کہ عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ نے مارا ہے۔ جس وقت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑے ہوئے تو آپ نے پوچھا کہ تو نے اس کو کیوں مارا ہے؟ کیا ہوا تھا؟ حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! میں نے اس کو دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کو گدھے پر بیٹھائے لے جا رہا تھا، اس نے گدھے کو تیز دوڑایا تاکہ وہ گر جائیں مگر وہ نہ گریں تو اس نے اس کو دھکا دے دیا تو وہ زمین پر گر گئیں اور یہ زمین پر منہ کے بل گرا (اس لئے یہ زخمی ہے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ اس عورت کو لاؤ وہ تمہاری بات کی تصدیق کرے۔ چنانچہ اس عورت کا باپ اور اس کا شوہر آیا اور ان دونوں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی تصدیق کر دی۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی کیخلاف سولی پر لٹکانے کا حکم دیا، اور پھر اسے سولی دے دی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے تم سے اس پر تو مصالحت نہیں کی تھی۔ پھر فرمایا لوگو! محمدﷺ کی پناہ دینے کے متعلق خدا سے ڈرو، جو شخص بھی ان میں سے ایسا کرے گا اس کی ہمارے ذمہ کوئی پناہ نہیں ہے۔