سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کے دور خلافت میں مسلیمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا‘ اس کذاب نے مشہور تابعی حضرت ابومسلم خولانی رحمتہ اللہ علیہ کو کسی طرح گرفتار کر لیا اور کہا کہ تم میری نبوت کا اقرار کر لو‘ وہ کہنے لگے‘ ہرگز نہیں۔ وہ کہنے لگا کہ میں تجھے آگ میں ڈلوا دوں گا فرمانے لگے ’’تو جو کر سکتا ہے کر لے‘‘ کیونکہ پہلے سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے چنانچہ اس نے آگ جلوائی اور ابو مسلم خولانی رحمتہ اللہ علیہ کو آگ میں ڈال دیا۔
انہوں نے اللہ اکبر اور بسم اللہ کے الفاظ پڑھے اور آگ میں چھلانگ لگا دی مگر آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ جب مسلیمہ کذاب نے دیکھا کہ آگ نے ابومسلم خولانی رحمتہ اللہ علیہ پر کوئی اثر نہیں کیا تو وہ پریشان ہو گیا اور ڈر گیا کہیں اس بندے کی وجہ سے مجھ پر پکڑ نہ آ جائے چنانچہ کہنے لگا اچھا میں تجھے آزاد کرتا ہوں لہٰذا انہیں آزاد کر دیا گیا‘ یہ واقعہ یمامہ میں پیش آیا اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ اور حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ تک پہنچ گئی‘ ابو مسلم خولانی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈال دی کہ مجھے نبی علیہ السلام کا دیدار کرنے کیلئے جانا چاہئے‘ جھوٹے نبی نے تو مجھے جلانا چاہا مگر میرے مالک نے مجھے محفوظ فرمایا‘ اب کیوں نہ میں سچے نبیﷺ کے قدموں میں حاضری دے آؤں‘ چنانچہ یمامہ سے مدینہ حاضر ہوئے۔ مسجد نبویؐ میں دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہی تھے کہ حضرت عمرؓ قریب آ گئے انہوں نے اجنبی شخص کو دیکھ کر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہنے لگے کہ ابو مسلم خولانی ہوں‘ پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ کہنے لگے کہ میں یمامہ سے آیا ہوں‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم نے سنا ہے کہ یمامہ میں ایک آدمی کو مسلیمہ کذاب نے آگ میں ڈال دیا‘ مگر آگ نے اس پر کوئی اثر نہیں کیا‘ کیا تم نے بھی اس کے بارے میں سنا ہے؟ فرمانے لگے جی ہاں وہ آدمی تو میں ہی ہوں جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ حضرت عمر فاروقؓ بڑے خوش ہوئے فرمانے لگے کہ چلو میں آپ کو خلیفہ رسولﷺ کے پاس لے کر جاؤں۔
چنانچہ انہیں صدیق اکبرؓ کے پاس لے کر آئے اور کہنے لگے ‘امیر المومنین آج اللہ تعالیٰ نے اس امت میں ایسے شخص کو کھڑا کر دیا ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی یادیں تازہ کر دیں۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے ایمان کی نسبت سے ان کو دنیا کی آگ میں جلنے سے محفوظ فرما دیا‘ بالکل اسی طرح جب ایمان والوں کو قیامت کے دن جہنم کے اوپر سے گزارا جائے گا تو جہنم کی آگ کہے گی ’’اے مومن جلدی چل کہ تیرے نور نے تو میری آگ کو بجھا ڈالا ہے‘‘۔