حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب اپنے بھائی مولانا زکی کیفی مرحوم کے متعلق فرماتے ہیں ’’انہیں خود کوئی راحت یا خوشی میسر آتی تو والدین اور بہن بھائیوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرتے تھے بعض اوقات یہ جذبہ اس حد تک بڑھ جاتا کہ دوسروں کو الجھن ہونے لگتی۔ ایک مرتبہ میں لاہور میں تھا، رات گئے تک انہوں نے گھر بھر کو کشت زعفران بنائے رکھا، سونے کے وقت ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، میں بستر پر لیٹ چکا تھا اور روشنیاں گل ہو چکی تھیں، اچانک انہوں نے اپنے کمرے سے مجھے پکارا،
مجھے کچھ تشویش سی ہوئی اور میں دوڑتا ہوا پہنچا۔ لیکن انہوں نے مجھے اپنے قریب بستر پر بٹھایا اور بستر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کیا، بات صرف اتنی تھی کہ ان کے سرہانے ایک کھڑکی تھی اور باہر سے ایک درخت کی شاخیں اس کھڑکی کو چھوتی تھیں، چودھویں رات کی چاندنی اس درخت کے پتوں میں چھن چھن کر بستر پر ایک عجیب سماں پیدا کر رہی تھی۔ بھائی جان کہنے لگے ’’دیکھ! کتنا خوبصورت منظر ہے، مجھے یہ منظر بڑا حسین معلوم ہوا، میں نے سوچا کہ تم بھی اس منظر سے لطف اندوز ہو کر سو، بس تمہیں اس لئے بلایا تھا‘‘۔