محمود غزنوی نے جب “سومنات” فتح کیا تو سلطان محمود غزنوی سومنات کے سب سے بڑے مندر کے اندر داخل ہوا جس میں ہندوؤں کا سب سے بڑا دیوتا بت کی صورت میں پوجا جاتا تھا سومنات کے اس بت کو معجزوں کا دیوتا کہا جاتا تھا اور اسے ناقابل شکست بھی تسلیم کیا گیا تھا۔سومنات کے مندر میں یہ سب سے بڑا دیوتا اور بت مندر میں معلق رہتا تھا۔ بت کو مندر کے بڑے کمرے میں اس انداز میں معلق دیکھ ہر شخص اس کی برتری تسلیم کرلیتا۔
اور جو برتری تسلیم نہ کرتا وہ بھی ایک بار سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ گرانڈیل وزنی بتکسی زنجیر، کسی نظر نہ آنے والے سہارے کے بغیر کس طرح فضا میں معلق ہے. صاف ظاہر ہے کہ اس کے فضا میں معلق ہونے کا کرشمہ دکھا کر اس کی عظمت اور ہیبت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھایا گیا تھا۔بہرحال جب سومنات فتح ہوا تو محمود غزنوی مشہور مسلم دانشور البیرونی کے ساتھ بڑے بت کو دیکھنے مندر کے اندر آگیا
جب غزنوی مندر میں داخل ہوا تو اس بت کو فضا میں بغیر کسی سہارے کے معلق دیکھ کر چکرا گیا. محمود غزنوی نے حیران ہوکر البیرونی سے پوچھا۔۔۔!”یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ بت بغیر کسی سہارے کے فضا میں کس طرح معلق ہے‘‘۔البیرونی نے چند لمحے سوچا پھر ادب سے بولا: سلطان معظم! اس مندر کے چھت کے اس طرف سے چند اینٹیں نکلوادیں۔سلطان کے حکم پر چند اینٹیں نکالی گئیں۔جب چھت سے البیرونی کی بتائ ہوئ جگہ سے کچھ اینٹیں نکالی گئیں تو سومنات کے فضا میں معلق بت یکدم ایک طرف جھک گیا… اور زمین سے قریب تر آگیا۔البیرونی نے ادب سے وضاحت کی۔۔۔! سلطان معظم! یہ ان ہندو پروہتوں اور پنڈتوں کی مکاری ہے. یہ بت لوہے کا بنوایا گیا ہے اور مندر کی چھت پر مخصوص جگہ بہت بڑے مقناطیس نصب کیے گئے ہیں. یہ مقناطیس لوہے کی بت کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور یوں یہ بت ساکت معلق رہتا ہے. چونکہ یہ بڑے بڑے مقناطیس مضبوطی سے نصب کیے گئے ہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اسی لئے یہ بت بھی فضا میں معلق ہے۔جب مندر کی چھت اکھاڑی گئ تو وہ بت بھی دھڑام سے زمین پر گر پڑا! پھر اینٹوں کا معاینہ کیا گیا تو البیرونی کا تجزیہ سوفیصد صحیح نکلا۔