اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ایئر لائن کا طیارہ پی کے 661 چترال سے اسلام آباد آ رہا تھا جس میں معروف نعت خواں اور مذہبی اسکالر جنید جمشید اور ان کی اہلیہ 45دیگر افرادکے ساتھ موجود تھے کہ حویلیاں کے مقام پر اس طیارے کا انجن خراب ہونے کی باعث پہاڑی سے ٹکر ا کے نیچے گر کر تباہ ہو گیا ۔ 47جانوں کا نقصان پاکستان کا ایک بہت بڑا نقصان تھا جس کی بھرپائی شاید رہتی دنیا تک نہ ہو سکے تاہم ہم سب ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے دعاگو ہیں ۔
جنید جمشید تبلیغی جما عت سے منسلک ہو کر دین اسلام کا پرچار کرنے میں مصروف تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جنید جمشید بہت شفیق باپ تھا بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کی اخلاقی صفت بہت نمایاں تھی، میں نے زندگی میں جنید جمشید جیسے اخلاق والے بہت کم دیکھے ہیں ۔ آخری مرتبہ چترال میں ہی پرسوں اس سے رابطہ ہوا تھا ۔ میرا، سہیل اور جنید جمشید کا پروگرام تھا کہ سعید انور کی جماعت کی مدد کیلئے جائیں گے لیکن میں مصروفیت کی وجہ سے جا نہیں سکا انہوں نے کہا کہ جنید جمشید مجھ سے ہمیشہ ہی کہتا تھا کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے مشن کو لے کر چلتا رہوں اور اسی راستے میں میری زندگی تمام ہو،
اس نے شوبزنس کی دنیا چھوڑنے کے بعد کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے مجھے فون کرکے بتایا کہ اس کے پاس اپنی والدہ کی دوا کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مجھے پیپسی والے چار کروڑ روپے دے رہے ہیں کہ ایک گانا گادو لیکن میں نے انکار کردیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ جنید جمشیداور میں نے 2007 سے 2016 تک تمام حج اکٹھے کیے، ہم دونوں کسی دنیاوی لالچ کے بغیر جے جے کے نام سے حاجیوں کو خدمت کیلئے لے کر جاتے تھے۔انہوںنے کہا کہ میں جنید کیلئے ہمیشہ دعا کروں گا ، یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑے