اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ جسٹس ثاقب نثاردوبرس سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے اور یہ 17 جنوری 2019ء کو ریٹائر ہو گئے لیکن یہ آج بھی خبروں میں حاضر سروس ہیں‘ جسٹس صاحب کا دور تلاطم خیز بھی تھا اورخبرناک بھی‘ پورے میڈیا کے کیمرے دن بھر سپریم کورٹ پرفوکس رہتے تھے‘
جسٹس ثاقب نثار نے ریکارڈ سو موٹو نوٹسز بھی لیے‘ دورے بھی کیے اور یہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد میڈیا کا سب سے مرعوب موضوع بھی رہے‘ ان کے دور میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب ٹیلی ویژن سکرینز پر ان کے ٹکرز نہ چلے ہوں یا جسٹس ثاقب نثار سے متعلق کوئی بریکنگ نیوز نہ آئی ہو‘ چیف جسٹس نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ فنڈ ریزنگ بھی شروع ہوئی‘ ان کے دور میں میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے بھی ہوئے‘یہ ڈس کوالی فائی بھی ہوئے اور گرفتار بھی ہوئے اور عمران خان کو صادق اور امین کا ٹائٹل بھی ملا اور 2018ء کے متنازع الیکشن بھی ہوئے گویا ان کا دور ٹھیک ٹھاک ہنگامہ خیز تھا اور اس کی ہنگامہ خیزی آج بھی قائم ہے‘ اللہ تعالیٰ نے جسٹس ثاقب نثار کو یاد داشت بھی اچھی دے رکھی ہے‘ یہ بات اور اس کا سیاق و سباق نہیں بھولتے‘ جنوری 2018ء میں قصور کی بچی زینب کا واقعہ پیش آیا تھا‘ اس واقعے کے دوران ہمارے صحافی دوست ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کر دیا ’’ملزم عمران علی عالمی مافیا کا رکن ہے اور اس کے 37 فارن اکائونٹس ہیں‘‘ جسٹس ثاقب نثار نے اس دعوے پر سوموٹو نوٹس لے لیا‘ سماعت شروع ہو گئی‘ چیف جسٹس نے اس سماعت کے دوران سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کو بھی معاونت کے لیے عدالت بلا لیا‘
میں بھی اس لسٹ میں شامل تھا لیکن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے عدالت نہ جا سکا‘ میری چند ماہ بعد جہاز میں جسٹس صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہیں یاد تھا میں سماعت کے دوران عدالت نہیں آیا تھا لہٰذا انہوں نے فوراً شکوہ کیا’’میں نے آپ کو دعوت دی تھی لیکن آپ نے ٹھکرا دی‘‘ میں نے معذرت کر کے عرض کیا ’’یہ واقعی میری کوتاہی ہے‘ آپ اب جب بھی بلائیں گے میں حاضر ہو جائوں گا‘‘
اور انہوں نے دوسرے ہی دن مجھے چائے پر بلا لیا اور یوں میری ان سے ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی‘ میں نے اس ملاقات پر 22 مارچ 2018ء کو’’چیف جسٹس کے ساتھ ایک طویل ملاقات‘‘کے ٹائٹل سے کالم لکھا تھا‘ اس کالم نے بھی اس زمانے میں بہت شور برپا کیا تھا‘ اس پر شوز بھی ہوئے تھے اورشدید تنقید بھی لیکن جسٹس ثاقب نثار نے واقعی حوصلے کے ساتھ تنقید برداشت کی اور میں آج بھی اس پر ان کی تعریف کرتا ہوں‘
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میری ان سے چند مرتبہ فون پر گفتگو ہوئی تاہم ملاقات نہیں ہو سکی۔
جسٹس ثاقب نثار کا واٹس ایپ چار دن پہلے ہیک ہو گیا تھا‘ یہ اس پر بہت ڈسٹرب تھے لہٰذا سوموار اور منگل میرا ان سے دو بار ٹیلی فون پر رابطہ ہوا‘ یہ میڈیا اور میرے ساتھ ناراض ہیں لیکن یہ اس ناراضی کے باوجود سب سے بات بھی کر لیتے ہیں اور جس سوال کا جواب یہ دینا چاہتے ہیں یہ دے دیتے ہیں
اور جو بات انہیں پسند نہیں آتی یہ اسے گول کر دیتے ہیں‘ یہ ان کی پرانی عادت ہے یہ جس ایشو پر بات نہ کرنا چاہیںیہ اسے ڈائی ورٹ کرنے کے لیے کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتے ہیں‘ میرے ساتھ گفتگو میں بھی یہ بار بار یہ تکنیک استعمال کرتے رہے‘ ان کا کہنا تھا آپ لوگوں نے پورا ملک تباہ کر دیا‘ آپ کی ذمہ داری ہے آپ سچ بولیں لیکن آپ جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ نہیں کہہ رہے‘
ان کا دعویٰ تھا ان کے اوپر بے ہودہ الزامات لگائے جا رہے ہیں جب کہ انہوں نے نیک نیتی اور انسانی حقوق کو سامنے رکھ کر تمام فیصلے کیے‘ ان کے بقول’’ میں نے ایک لاکھ 30 ہزار درخواستیں نبٹائیں لیکن ان پر کوئی بات نہیں کر رہا‘ مجھے جان بوجھ کر گندا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘
یہ مجھے انڈر پریشر لانا چاہتے ہیں‘ اپ سیٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپ سیٹ ہوں اور نہ انڈر پریشر ہوں‘یہ لوگ میری جان تو نہیں لے سکتے‘‘ ان کا کہنا تھا میرا واٹس ایپ اچانک ہیک ہو گیا‘ میرے بیٹے نے واٹس ایپ اور ایف آئی اے کو مطلع کر دیا‘ واٹس ایپ کمپنی کا میسج آ گیا‘ ہم آپ کااکائونٹ ریکور کر رہے ہیں لیکن ایف آئی اے کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا‘ میں نے پوچھا‘
کیا آپ کے واٹس ایپ میں آپ کی کوئی ایسی آڈیوز اور ویڈیوز تو نہیں تھیں جنہیں کوئی غلط استعمال کر سکتا ہو‘ یہ سوال ان کو اچھا نہیں لگا اور ان کا کہنا تھا میرا واٹس ایپ ہیک کرنا چوری ہے اور یہ جس نے بھی کی اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا پڑے گا‘ میں اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں‘ مجھے ایشوز میں گھسیٹنے‘ خراب کرنے اور تقریروں میں میرے اوپر کیچڑ اچھالنے کی کیا جسٹی فکیشن ہے؟
آپ تو کم از کم سچ کا ساتھ دیں‘آپ تو دوسروں کی زندگی میں گھسنے والوں کے ساتھ نہ چلیں‘ میں نے پوچھا‘ کیا جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہے تھے؟ جسٹس ثاقب نثار نے کلمہ پڑھ کر جواب دیا‘ بالکل نہیں‘ میرا دونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا‘ میں اتنا کم زور نہیں تھا کہ جنرل فیض جیسا شخص مجھ سے رابطہ کر سکتا‘ مجھ سے مل سکتا اور میں اس کی خواہش پوری کرتا‘
میں جنرل فیض حمید سے کیوں ملوں گا اور نہ اس میں اتنی جرات تھی کہ یہ مجھے فون کرتا یا ملاقات کرتا‘ میں نے پوچھا آپ نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیاتھا‘ یہ فیصلہ آج بھی ڈسکس ہو رہا ہے‘ کیا آپ کا فیصلہ غلط تھا‘یہ فوراً بولے‘ جج درخواستوں اور پٹیشنز میں اٹھائے جانے والوں سوالوں پر فیصلے کرتے ہیں‘ ہمارے سامنے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے بنی گالا کی منی ٹریل کے
حوالے سے تین سوال رکھے تھے اور ہم(چیف جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب) نے عمران خان کو ان تین ایشوز پرسچا پایا اور ہم نے انہیں صادق اور امین ڈکلیئر کر دیا‘ عمران خان اس کے علاوہ کیا کرتے ہیں‘ ان کی باقی زندگی کیسی گزری اور ان کے باقی معاملات کیا ہیںاور کیا یہ ان میں بھی صادق اور امین ہیں یا نہیں ہیں میری بلا جانے‘مجھے کیا پتا؟
ان کا کہنا تھا ججز فیصلے کیا کرتے ہیں‘ فیصلے غلط بھی ہوتے ہیں اور صحیح بھی‘ ان پر تنقید بھی ہوتی ہے اور تعریف بھی اور یہ فیصلے ججز کے بعد بھی ڈسکس ہوتے رہتے ہیں‘ میرے فیصلے بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ آپ پڑھ لیں‘ آپ ان پر بات بھی کر لیں تاہم یہ یاد رکھیں جج بھی انسان ہوتے ہیں‘ یہ بھی غلط ہو سکتے ہیں اور ان کے فیصلوں کا فیصلہ بہرحال تاریخ کرتی ہے‘ میں نے پوچھا‘
یہ تاثر ہے جہانگیر ترین بیلنسنگ ایکٹ کا شکار ہو گئے تھے‘ یہ بولے‘ آپ ججمنٹ پڑھ لیں‘ اس کا جواب میں نہیں ججمنٹ دے گی‘ میں نے پوچھا‘ عمران خان نے چند دن قبل آپ سے کیوں رابطہ کیا تھا؟ یہ بولے‘ یہ کسی معاملے میں میری مدد چاہ رہے تھے لیکن میں نے ان سے فوراً کہہ دیا‘ میں اس معاملے کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا‘ میں اس میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا‘ میں نے پوچھا‘
کیا آپ کا واٹس ایپ اس گفتگو کے بعد ہیک ہوا؟ جسٹس صاحب کا جواب تھا‘ میں آپ سے بھی اس معاملے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا‘ میں نے پوچھا‘ کیا عمران خان آپ کے ذریعے موجودہ ججز سے کوئی سپورٹ چاہ رہے تھے‘ یہ سن کر جسٹس ثاقب ناراض ہو گئے اور انہوں نے سخت لہجے میں جواب دیا‘ میں اس معاملے میں قطعاً کوئی بات نہیں کرنا چاہتا‘ نہ ہاں اور نہ ناں‘دوسرا ججز آزاد ہیں‘
یہ میری بات کیوں مانیں گے؟ میں نے پوچھا اگر آپ کی عمران خان سے گفتگو لیک ہو گئی تو کیا یہ آپ دونوں کے لیے خطرناک نہیں ہوگا؟ یہ سختی سے بولے‘ تم لوگوں نے پورے ملک کو برباد کر دیا ہے‘ بچوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں‘تم لوگوں نے تمام لوگوں کے بارے میں بد اعتمادی اور بے اعتباری پیدا کر دی ہے‘ آپ لوگ میرے ساتھ بھی یہی کر رہے ہیں لیکن میں ڈرنے والا نہیں ہوں‘
میں نے پوچھا‘ آپ کس کو بربادی کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں‘ یہ بولے‘ ہم سب ذمہ دار ہیں‘ میں کسی ایک ادارے کو ذمہ دار نہیں سمجھتا‘ ہم سب لوگوں اور اداروں نے مل کر اس ملک کو تباہ کیا‘ آپ نے بھی اور میں نے بھی‘ آپ کی ذمہ داری ہے آپ پاکستان کے بارے میں سوچیں‘ بچوں کی زندگیاں تباہ نہ کریں‘ اپنا کنڈکٹ ٹھیک کر لیں‘ ریٹنگ کے پیچھے نہ دوڑیں‘ میں نے پوچھا‘
آپ کا جنرل فیض حمید کے ساتھ کوئی رابط ہے؟ یہ بولے‘ بالکل نہیں ہے تاہم جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد اڑھائی تین ماہ قبل (جنوری 2023ء میں) میرے پاس میرے گھر تشریف لائے تھے‘ ہم نے چائے اکٹھے پی‘ گپ شپ کی‘ بچوں اور فیملی کے بارے میں بات کی اور بس۔میں نے کہا میرا خیال ہے آپ اس ملاقات سے قبل فیملی سمیت ان کے گھر بھی گئے تھے‘ ان کا جواب تھا یہ ملاقاتیں غیر سیاسی تھیں اور فیملی میٹنگز تھیں‘ ان کا سیاست اور موجودہ حالات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا‘ آپ لوگ سپیکولیشنز نہ کریں۔
میں نے سابق چیف جسٹس کو ایک بار پھر عمران خان سے گفتگو اور ان کے دور کے مقدمات کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن یہ بڑی مہارت سے بات کو دوبارہ میڈیا‘ ’’کریکٹر اسیسی نیشن‘‘ اور اپنے کارناموں کی طرف لے آئے اور ان کا کہنا تھا میں نے زندگی میں جو اچھے کام کیے آپ لوگ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ آپ میرے سیاسی فیصلوں کو کیوں زیادہ ڈسکس کرتے ہیں؟
ہمارے پاس اس دور میں جو شواہد تھے ہم نے قانون کے مطابق فیصلے کر دیے‘ آپ فیصلے پڑھیں اور انہیں اچھا یا برا سمجھ لیں‘مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں تاہم مجھے ان کی گفتگو سے یہ محسوس ہوا یہ ڈسٹرب بھی ہیں اور پریشان بھی۔