لاہور( این این آئی)گوادر بندرگاہ کے ذریعے روس سے گندم کی درآمد شروع ہو گئی ،معاہدے کے مطابق 9بحری جہازوں کے ذریعے مجموعی طور پر 450,000 میٹرک ٹن گندم درآمد کی جائے گی اور اس سلسلے میں پہلا بحری جہاز ایم وی لیلا چنئی 50,000 میٹرک ٹن گندم لے کر گوادر بندرگاہ پہنچ گیا ۔گندم کی درآمد ، ان لوڈنگ ،سٹوریج اور اس کی ترسیل کیلئے
چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان، پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ، پاکستان کسٹمز اور نیشنل لاجسٹکس سیل اپنا اپنا کردار ادا کریں گے جس کے لئے تمام انتظامات پہلے ہی مکمل کر لئے گئے ہیں۔ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اور گوادر انٹرنیشنل ٹرمینل لمیٹڈ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت گوادر بندرگاہ کے ذریعے روس سے450,000 میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی جائے گی ۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے 30 نومبر 2022 کو گندم کی درآمد کے لئے ٹینڈر کھولا تھا، 7ویں بین الاقوامی ٹینڈر اور جی ٹو جی پیشکش کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے روسی کمپنی پروڈنٹروج کی جانب سے دی گئی سب سے کم بولی کی منظوری دی ۔کمپنی کی جانب سے جی ٹو جی 372ڈالر فی میٹرک ٹن کی بولی دی گئی جبکہ معاہدے کے مطابق 450,000 میٹرک ٹن گندم کادرآمدی آپریشن 2 مارچ سے 31 مارچ 2023 تک ہوگا۔
معاہدے کے مطابق گوادر بندرگان سے اندرون ملک نقل و حمل پر کوئی بھی اضافی لاگت پاسکو برداشت کرے گی جو گندم کے سٹاک کے اجرا ء کے وقت صوبوں سے وصول کیاجائے گا۔دوسری طرف ماہرین نے کہا ہے کہ اتنے بڑے حجم میں گندم کی درآمد کا معاہدہ خطے میں ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر گوادر بندرگاہ کی فطری صلاحیت کو بہتر بنانے کی طرف ایک غیر معمولی پیشرفت ہے جو پاکستان کی معیشت میں جی ڈی پی میں 10 ارب ڈالر کا حصہ ڈالے گا۔
گوادر انٹرنیشنل ٹرمینلز لمیٹڈ کے عہدیدار نے گوادر بندرگاہ کے ذریعے گندم درآمد کرنے کو ایک نیا سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی درآمد سے گوادر میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس سے مقامی سطح پر روزگار کی صلاحیت کو بھی فروغ دے گا کیونکہ جب درآمدی گندم کی ان لوڈنگ ، سٹوریج اور ترسیل کیلئے سر گرمیاں شروع ہوں گی تو اس کے لئے یہاں پر بڑے پیمانے پر ہنر مند، نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ سے گزشتہ ماہ کامیابی سے یوریا کی نقل و حمل بھی کی گئی ہے اور اب تمام متعلقہ محکمے بلوچستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گوادر بندرگاہ سے آنے اور جانے کے لیے متبادل زمینی راستے تلاش کر رہے ہیں اور گزشتہ ماہ وزارت مواصلات نے بلوچستان کے راستے 4 نئے متبادل تجارتی راستوں کی نشاندہی کی ہے ۔
گوادر بندرگاہ کوگندم کی ترسیل اور پروسیسنگ کے معاملے میں پاکستان کی دیگر بندرگاہوں پر کیسے سبقت حاصل ہے سوال کے جواب میں آل گوادر شپنگ کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے ایک رکن نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ گوادر بندرگاہ کوپاکستان کی دوسری دو بندر گاہوںکے مقابلے میں سہولیات ،اندرون ممالک ترسیل اور دیگر سہولیات کے حوالے سے سبقت حاصل ہے،مذکورہ دونوں بندرگاہوں پر ہمیشہ رش رہتا ہے اور بحری جہاز ڈیمریج پر جاتے ہیں اور دونوں کے اسٹوریج چارجز بھی بہت زیادہ ہیںتاہم گوادر پورٹ پر تیز ترین سٹیوڈورنگ سروسز کے ساتھ ساتھ کوئی ڈیمریج اور اسٹوریج چارجز بھی نہیں ہیں۔