عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے میں سابق آرمی چیف کا بہت بڑا کردار رہا ہے،چوہدری محمد سرورنے عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ اختلافات کی دو اہم وجوہات بتا دیں

11  جنوری‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے میں سابق آرمی چیف کا بہت بڑا کردار رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ پر تنقید مناسب نہیں۔اسلام آباد میں ”وائس آف امریکہ“کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ

یہ مناسب رویہ نہیں ہے کہ میں کل تک عمران خان کے ساتھ تھا اور آج جب میں گورنر نہیں رہا تو ان کی ذات پر تنقید شروع کردوں،میں سمجھتا ہوں کہ ٹکر اس وقت لینی چاہیے جب آپ اقتدار میں ہوں اور جب آپ اقتدار میں نہیں تو لڑائی ختم کردینی چاہیے۔چوہدری سرور نے کہا کہ عمران خان نے انہیں گورنر شپ سے ہٹا دیا تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی ذات پر حملے شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسائل پر بات کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کی خامیوں کو بھی سامنے لاتے ہیں لیکن ذاتی حملے نہیں کیے جانے چاہئیں۔سابق گورنر نے کہاکہ جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ نے بجٹ منظوری سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک ہر موقع پر عمران خان کی بھرپور مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے تعلقات میں تنا پیدا ہوا تو فوج نے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کروایا۔اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے حوالے سے چوہدری سرور نے کہا کہ حالیہ عرصے میں فوج کا سیاست میں کردار دکھائی نہیں دیا،ایسی چیز نہیں دیکھی کہ کہہ سکوں کہ وہ(فوج)کردار ادا کررہی ہے،میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہوگیا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔بزدار اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری اختلافات کی بنیاد بنے’عمران خان اور جنرل(ر)قمر باجوہ کے درمیان اختلافات کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے چوہدری سرور نے کہا کہ ان کی نظر میں عمران خان کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کی دو وجوہات تھیں،

ان میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی خراب کارکردگی کے باوجود ان کو برقرار رکھنا اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)کے سربراہ کی تعیناتی کو تاخیر میں ڈالتے ہوئے متنازع بنانا شامل ہیں۔سابق گورنر نے کہا کہ ان کے علم میں ہے کہ عثمان بزدار کے وزیر اعلی بننے کے چند ماہ بعد ہی اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے دوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

چوہدری سرور نے کہا کہ فوج بھی عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی لیکن اس کے باجود انہیں ہٹایا نہیں گیا جس کی بنیاد پر فاصلے پیدا ہونا شروع ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ یہ فاصلے اختلافات میں اس وقت بدل گئے جب عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں تاخیر برتی جس سے وہ معاملہ متنازعہ بن گیا۔اس سوال پر کہ عمران خان تو کہتے ہیں جنرل (ر)باجوہ کے ساتھ اختلافات بدعنوانی کے خلاف اقدامات لینے کی وجہ سے پیدا ہوئے؟

چوہدری سرور نے کہا کہ ساڑھے تین سال بطور گورنر کسی ایک اجلاس میں بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ سابق آرمی چیف بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ہیں۔عمران خان بغیر مشاورت فیصلے پارٹی پر مسلط کرتے ہیں سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہاکہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی کیوں کہ وزیرِ اعلی اور صوبائی وزرا یہ نہیں چاہتے۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ تحریکِ انصاف میں یہ ہے کہ عمران خان بغیر مشاورت کے فیصلہ کرلیتے ہیں اور پھر اسے جماعت پر نافذ کردیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیوں کہ جماعت کے لوگوں کا ذہن وہ نہیں ہوتا جو عمران خان فیصلہ کرتے ہیں تو اس بنا پر اس پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا ہے۔چوہدری سرور نے کہا کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہو یا پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا، اراکین اسمبلی کی اکثریت اس فیصلے کے خلاف تھی،پارٹی رہنما عمران خان کے مزاج کو سمجھ گئے ہیں لہذا وہ ان کے کسی فیصلے کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن ایسا راستہ اپناتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد نہ ہو پائے۔ چوہدری سرور نے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے عمران خان براہ راست انتخابات چاہتے تھے

لیکن چونکہ پی ٹی آئی کے رہنما یہ نہیں چاہتے تھے تو انہوں نے اس بارے میں اب تک قانون سازی ہی نہیں ہونے دی ہے۔اس سوال پر کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمران خان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے؟ چوہدری سرور نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا موقف واضح ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ پرویز الٰہی کیا راستہ لیں گے تاہم بظاہر وہ کہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہونی چاہیے۔چوہدری سرور نے کہا کہ ان کی نظر میں قبل از وقت عام انتخابات کا امکان نہیں ہے اور الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔

سیاسی جماعت یا الگ دھڑا بنانے کا نہیں سوچ رہا،اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چوہدری سرور نے کہا کہ وہ سیاسی دوستوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں کہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہے یا سیاست میں حصہ نہیں لینا ہے۔چوہدری سرور نے کہا کہ وہ الگ جماعت یا پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کا دھڑا بنانے کا نہیں سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہم خیال لوگ کسی ایک پلیٹ فارم یا سیاسی جماعت میں کام کریں جس سے ملک کی بہتری ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ وہ اقتدار کے لیے پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جو تجربہ انہوں نے دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت سے حاصل کیا

اسے پاکستان کی سیاست میں منتقل کرسکیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔چوہدری سرور برطانوی ہاس آف کامنز کی تاریخ کے پہلے مسلمان اور جنوب ایشائی رکن رہے ہیں اور وہ اپنی برطانوی شہریت ترک کر کے 2013 میں مسلم لیگ (ن)کے دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ پنجاب کے گورنر بنے تھے البتہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے اختلافات کے باعث وہ جنوری 2015 میں گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے تھے بعدازاں انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی، وہ کچھ عرصہ پنجاب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر رہنے کے بعد 2018 میں دوبارہ پنجاب کے گورنر بن گئے تھے تاہم گزشتہ برس تین اپریل کو عین اس روز جب قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی، عمران خان نے چوہدری سرور کو بطور گورنر برطرف کر دیا تھا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…