کابل(این این آئی ) افغانستان میں طالبان تحریک کی طرف سے خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے جاری کیے گئے حالیہ فیصلوں نے تحریک کے اندر اختلافات مزید بڑھا دئیے، یہ اختلافات اس حد تک پھیل چکے ہیں کہ متحارب دھڑے اپنے آپ کو وفادار افواج کے ذریعے محاذ آرائی سے تحفظ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق ذرائع نے مزید کہا کہ حالیہ فیصلے تحریک کے رہ نما ہیبت اللہ اخوند زادہ کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں، جو خود عوام میں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ وہ جنوبی شہر قندھار سے ملک پر حکومت کرتے ہیں اور اپنے فیصلے طالبان کے اندر مذہبی کونسل کے ذریعے جاری کرتے ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ طالبان رہ نمائوں کا ایک گروپ جس میں وزیر دفاع ملا محمد یعقوب جو تحریک کے بانی مرحوم ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی،(حقانی نیٹ ورک)کے رہ نما، شامل ہیں۔ حقانی ایف بی آئی کو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں وہ اخوند زادہ کے فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے اخوند زادہ سے ملاقات کی کوششوں کو اب تک مسترد کر دیا گیا ہے۔ذرائع نے مزید کہا کہ تنائو اب اس قدر شدید نظر آتا ہے کہ دونوں دھڑے اپنے وفادار افراد کو اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ مشکل وقت میں ان کا استعمال کیا جا سکے۔
ملا محمد یعقوب اور حقانی دارالحکومت کابل میں ایک قلعے پر قابض ہیں۔ اخوندزادہ گروپ کی نمائندگی قندھار میں کی جاتی ہے، جس میں نوے کی دہائی کے اوائل میں طالبان کا آغاز ہوا تھا۔درایں اثنا افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے خواتین سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے تحریک کے رہ نمائوں کے درمیان کسی قسم کی تقسیم یا اختلافات کے وجود سے انکار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ یعقوب اور حقانی کی طرف سے اخوندزادہ سے ملاقات کی کسی بھی کوشش سے آگاہ نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی امارت میں ہر کوئی سپریم لیڈر کے احکامات کا احترام اور تعمیل کرتا ہے۔