مری ( اے پی پی) چیئرپرسن پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن انجینئر ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے 187 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی مالیت 30 ٹریلین ڈالر ہے اور کلین کول ٹیکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے اس سے 500 سال سے زائد عرصے تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ کوہسار یونیورسٹی مری اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کے زیر اہتمام پنجاب ہائر
ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے مشترکہ طور پر منعقدہ ”پیراڈیم شفٹ ان ہائر ایجوکیشن- ہیکاتھون پلاننگ فار فیوچر“ کے موضوع پر 3 روزہ وائس چانسلر کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو توانائی کے مہنگے وسائل درآمدی تیل و گیس پر انحصار کرنے کی بجائے بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے مقامی وسائل کی ترقی و استعمال کی ضرورت ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر شاہد منیر نے” 21 ویں صدی میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے چیلنجز“ کے موضوع پر اپنی پریزنٹیشن میں کہا کہ پاکستان کا ایندھن کا درآمدی بل 21.43 بلین ڈالر ہے جو اس کے کل زرمبادلہ کا 66 فیصد ہے۔ اگر ہم مقامی قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے انہیں بجلی کی پیداوار کیلئے بروئے کار لائیں تو زرمبادلہ کی بہت زیادہ بچت کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں صدی کا ایک بڑا چیلنج ہر ایک کو ماحول دوست میں سستی توانائی فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا 61 فیصد تیل و گیس بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تیل کے مجموعی ذخائر 233 ملین بیرل ہیں جبکہ سالانہ صرف 44 ملین بیرل نکالا جاتا ہے۔ گیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 2025 تک قدرتی گیس کی پیداوار ایک فیصد (بلین کیوبک فٹ یومیہ) کم ہونے کا امکان ہے جبکہ آنے والے دنوں میں اس کی طلب 8 فیصد تک پہنچ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ مقامی قدرتی وسائل کی کمی صنعتی اور گھریلو لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ ہے جو برآمدی اہداف کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔
انہوں نے سستی بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے مقامی کوئلے، گیس، شمسی توانائی، شیل آئل اور گیس اور ونڈ انرجی کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف شمسی ٹیوب ویل، واٹر پمپ، ہیٹر، گیزر، ککر، اور ڈی سیلینیشن وغیرہ کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔
نیوکلیئر پاور کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ نیوکلیئر انرجی میں سرمایہ کاری و دیکھ بھال کے اخراجات زیادہ اور ایندھن کے کم اخراجات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ونڈ انرجی کی دستیاب صلاحیت سے بھی 43,000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان گنا پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور ہم گنے اور کپاس کے ڈنٹھل کے فضلے سے بھی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک بھی بائیو گیس استعمال کر رہے ہیں جبکہ پن بجلی توانائی کا سب سے سستا ذریعہ ہے، اس کے علاوہ غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو بھی زیر کاشت لانے کی ضرورت ہے۔