اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی، اینکر پرسن اور کالم نگار سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ عمران نیازی کو سیاست میں اگرچہ گولڈ اسمتھ نے لانچ کیا لیکن پاکستان میں یہ بات صرف دو تین لوگوں کو معلوم تھی ۔پاکستانیوں کی نظر میں وہ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان، شوکت خانم اسپتال بنانے والے فلاحی ورکر اور ایک سیدھا سادے انسان تھے۔
وہ ذاتی طور پر 1997اور 2002 کے انتخابات کے دنوں میں اس سے کہیں زیادہ پاپولر تھے جتنے ان دنوں ہیں۔تب ان کے ساتھ اے ٹی ایم آملے تھے، بدترین حکمرانی کی مثال قائم کی اور لوگوں کا یہ خیال نہ تھا کہ وقت آنے پر وہ فرح گوگی، خاور مانیکا، بزدار، محمود خان، پرویز الٰہی، خسرو بختیار، شہزاد مرزا ، زلفی بخاری اور شہباز گل جیسے لوگوں کے ذریعے حکومت چلائیں گے ۔اب وہ پاپولر ہونے کے ساتھ ساتھ آئین شکن (جسٹس عطا بندیال کی قیادت میں عدم اعتماد کا فیصلہ کرنے والے پانچ رکنی بنچ کے مطابق)، چندہ چور (الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق) اور ذاتی، سیاسی اور مالی تنازعات کے شکار بھی ہیں لیکن تب وہ صرف پاپولر تھے اور ان کی ذات کے ساتھ کوئی تنازعہ جڑا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان دونوں انتخابات میں وہ چند سیٹیں بھی حاصل نہ کرسکے۔ 2002کے انتخابات سے قبل عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے بوٹ خوب پالش کئے ۔ان کی وار آن ٹیرر میں شمولیت کو سپورٹ کیا۔
ہر روز جمائما کو ساتھ لے کر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات کے لئے پہنچ جاتے تھے ۔خوشامد کی خاطر نہ صرف ان کے مارشل لا کو خوش آمدید کہا بلکہ ریفرنڈم میں ان کے لئے ووٹ بھی مانگے ۔ تب بھی وہ پرویز مشرف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل سے یہی التجائیں کرتے رہے کہ انہیں چند درجن الیکٹ یبل عنایت کئے جائیں تو وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں لیکن اس وقت اقتدار کا ہما ان کی جگہ مسلم لیگ(ق) کے سربٹھانے کا فیصلہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ وہ گجرات کے چوہدریوں کے نمبرون دشمن بن گئے ۔
چوہدریوں کی نفرت میں انہوں نے وزارت عظمیٰ کے لئے اپنا ایک ووٹ بھی ظفراللہ جمالی کی بجائے مولانا فضل الرحمان کو دیا اور پھر میاں نواز شریف کی لندن میں بلائی گئی اے پی سی میں شرکت بھی کی۔جب پرویز مشرف صدر بن کر سیاسی آرمی چیف بن گئے تو عمران خان نیازی ان کے خلاف بھی بولنے لگے تاہم گولڈ اسمتھ کی نصیحت اور اپنی بصیرت کے مطابق انہوں نے امریکی نیوکانز اور پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھے۔
افغانستان اور ڈرون وغیرہ سے متعلق وہ ڈیپ اسٹیٹ ہی کی پالیسی پر چلتے رہے۔ ان کی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب مسلم لیگ(ن) سے جھگڑے کے بعد آصف علی زرداری کے ساتھ بھی اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ہوگئی۔ یوں 2010 سے عمران خان کو ایک تھرڈ فورس اور ایک نئے سیاسی مہرے کے طور پر کھڑا کرنے کا فیصلہ ہوا چنانچہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی ان کو مسیحا ثابت کرنے میں لگ گئے۔
ان کے حق میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے میڈیا چینلز اور اپنے زیر اثر اینکرز کو ڈیوٹیاں دیں۔ان کے فرینڈلی انٹرویوز ہونے لگے۔ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے ہی ان کی پارٹی میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر، شفقت محمود، اعظم سواتی اور اسی نوع کے لوگوں کو شامل کروایا حالانکہ 2002 میں شاہ محمود قریشی نے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو یہ کہہ کر معذرت کی تھی کہ میرا قد عمران خان سے کئی گنا بڑا ہے۔
مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے بڑی بڑی کاروباری شخصیات کو عمران خان کا اے ٹی ایم بنوایا۔ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے 2013 کے انتخابات میں ہی ان کو وزیراعظم بنوانے کی ٹھان لی تھی لیکن الیکشن سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کے ذریعے کچھ ایسی یقین دہانیاں کروائیں کہ جنرل کیانی نے فوج اور ایجنسیوں کو الیکشن کے عمل سے الگ کیا۔
وزیراعظم تو میاں نواز شریف بن گئے لیکن مسٹر ایکس اور وائی نے ہی لندن پلان کے تحت ان کے ساتھ کینیڈین شہری طاہرالقادری اور گجرات کے چوہدریوں کو ملا دیا۔ مسٹر ایکس اور وائی نے ہی ان سے دھرنے کروائے ۔یہ مسٹر ایکس اور وائی ہی تھے جنہوں نے تحفظ دے کر سول نافرمانی اور پی ٹی وی پر حملے جیسے جرائم کے باوجود انہیں تحفظ فراہم کیا۔
مسٹر ایکس اور وائی نے ہی ان کاراستہ ہموار کرنے کے لئے نیب کو استعمال کرکے عمران کے مخالفین کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں بی آر ٹی ، مالم جبہ اور سیتا وائٹ جیسے کیسز میں سزا سے بچایا۔مسٹر ایکس اور وائی نے ہی ان کا راستہ صاف کرنے کے لئے نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد بیٹی سمیت جیل میں ڈلوایا۔ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے ہی ڈان لیکس جیسے بے بنیاد اسکینڈل بنائے ۔
مسٹر ایکس اور وائی ہی عمران خان کے سیاسی اور صحافتی مخالفین کو نامعلوم نمبروں سے فون کرکے ڈراتے رہے ۔ مسٹر ایکس اور وائی نےاس پر بھی بس نہیں کیا بلکہ انتخابات سے قبل چیف الیکشن کمشنر سردار رضا اور سیکرٹری بابر یعقوب کے ذریعے آر ٹی ایس کو فیل کرنے کا پروگرام بنایا اور جب الیکشن سے چند روز قبل اسی مسٹر ایکس اور وائی نے آر ٹی ایس سسٹم کے ذریعے انہیں جتوانے کے منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی تو وہ خوشی سے اچھلے اور اس کا کوڈ بھی زبانی یاد کیا۔
اسی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے ان کے سوشل میڈیا ٹرولز کو شہہ اور ٹریننگ دی اور اپنے یوٹیوبرز بطور تحفہ انہیں عطیہ کیے۔ پھر جب مسٹر ایکس اور وائی نے سروے کے نتیجے میں اندازہ لگایا کہ عمران خان اس کے باوجود وزیراعظم نہیں بن سکتے تو پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اسی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے پولنگ ایجنٹوں کو نکال کر خود عمران خان نیازی کے امیدواروں کے حق میں ٹھپے لگوائے جس کی وجہ سے علی زیدی اور قاسم سوری جیسے وہ لوگ بھی ایم این ایز بن گئے جو یونین کونسل کے ممبر بھی نہیں بن سکتے تھے ۔
اسی مسٹر ایکس اور وائی نے کراچی میں ایم کیوایم اور پی یس پی کی سیٹیں پی ٹی آئی کو دلوادیں ۔ ان بے چاروں نے اس دھاندلی کی فریاد بھی کی لیکن پھراسی مسٹر ایکس اورمسٹر وائی نے ایم کیو ایم کو جبراََ عمران خان کی حمایت پر بھی مجبور کیا۔دھاندلی اور دھونس سے بننے والی اسی حکومت کے بارے میں اسی مسٹر ایکس اور وائی نے میڈیا کو دباکر مجبور کیا کہ وہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی واردات کا ذکر نہیں کرے گا۔
اسی مسٹر ایکس اور وائی نے زرداری کو اسمبلی میں بیٹھنے پر مجبور کرکے عمران خان کے سسٹم کو چلایا ۔ انہیں اعتماد کا ووٹ دلوایا۔ خود عمران خان کے بقول اسمبلی سے قانون سازی کے وقت بھی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی لوگوں کو کالیں کرکے ان کا کام آسان بناتے رہے ۔
جب یوسف رضا گیلانی سینیٹر بنے اور عملاً تیس کے قریب پی ٹی آئی کے ممبران باغی ہوگئے تو اسی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی نے کچھ ایم این ایز کو کمروں میں، کچھ کو کنٹینروں اور کچھ کو واش رومز میں بند کیا اور صبح ڈنڈے کے زور پر ان سے عمران خان کے حق میں ووٹ ڈلوایا ۔علی ہذا القیاس ۔آج وہ عمران خان احسان فراموشی کی انتہا کرتے ہوئے اسی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو دھمکیاں دے رہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ خالق کیا کرتا ہے اور مخلوق کا کیا انجام ہوتا ہے؟