اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے ہیںکہ
کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کیلئے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے،جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے ،عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ جج جیسی ہے،ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے،ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں ،اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی،عمران خان کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہی نہیں، لیڈر کی گفتگو میں ذمہ داری ہوتی ہے، فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے۔ جمعرات کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ،بینچ میںجسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابرستار شامل ہیں ۔سماعت کے دوران روسٹرم پر زیادہ وکلا ء آنے پر چیف جسٹس نے دیگر وکلا ء کو بیٹھنے کا کہہ دیا جس کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے ۔وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ عدالت میں گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا تھا، جواب گزشتہ سماعت پر عدالت کی آبزرویشنز کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، ہم نے جواب کے ساتھ دو سپریم کورٹ کی ججمنٹس لگائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اب توہین عدالت کیس کو بند کردیا جائے، اپنے دلائل کے دوران وکیل حامد خان نے دانیال عزیز کیس کا ذکر بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں،
دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی،انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہا کہ عمران خان کی کریمنل توہین ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے ،
ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کریمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، کریمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپکو سمجھایا تھا کہ یہ کریمنل توہین عدالت ہے۔
اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپکا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔اس دوران عدالت کے کہنے پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنا یا، حامد خان نے کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو توہین عدالت کی سیکشن 9 پڑھنے کی ہدایت دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں،
اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ لب لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لئے استعمال کی جا سکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاء تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا، کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟اس دوران جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کی۔جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہے عمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو مبینہ نہیں لکھا، معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جس پر حامد خان نے کہا کہ جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہی الفاظ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججز کے لیے ہوتا تو یہی جواب دیتے، آپ جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے،
یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہونگے اور یا عدالتوں میں۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے۔حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتاچیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہے۔حامد خان نے کہا کہ کئی بار بات اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی جتنی سمجھ لی جاتی ہے،
عمران خان نے شاید ایکشن کے لفظ کو درست طور پر نہیں کہا۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا توہین عدالت ایکٹ کے تحت لیگل ایکشن کو اس طرح پبلک میں کہا جا سکتا ہے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ لیگل کارروائی تو ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون فورمز بتاتا ہے کہ جہاں ایکشن لیا جا سکتا ہے، نہ کہ جلسوں میں۔حامد خان نے کہا کہ ایکشن کا کہنا لازمی طور پر کسی کو دھمکانے کی کوشش نہیں ہوتی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کسی جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔
حامد خان نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم وہ ویڈیو دوبارہ چلا دیتے ہیں۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پبلک میں جو الزام لگایا گیا یا جو الفاظ کہے گئے کیا انکا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟۔دوران سماعت عمران خان نے شعیب شاہین کو لقمہ دیا کہ میں نے جلسے میں کہا تھا، شعیب شاہین عمران خان کا پیغام لیکر حامد خان کے پاس پہنچے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے لکھا کہ اگر جج کے جذبات مجروح ہوئے،
جج کے جذبات نہیں ہوتے، آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہو گا، خاتون جج لاہور جا رہی ہوں گی، موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ قانونی کارروائی کرنا تو ہر کسی کا حق ہے۔اس دوران عمران خان نے ایک بار پھر شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ روسڑم پر جانا چاہتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ معاملہ خاتون جج کے ساتھ ہوا، پبلک میں انکے فیصلے کے خلاف ایکشن لینے کا کہا گیا؟چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ وہ واقعہ اس وجہ سے ہوا کیوں کہ اس کیلئے اشتعال دلایا گیا تھا، بات کو سمجھیں آپکو یہی بات بار بار سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لیڈر کی گفتگو میں بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک ایک لفظ اہم ہوتا ہے،ہمیں فتح مکہ سے بھی سیکھنا چاہیے، ایک ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ درست نہیں تھی۔
جسٹس بابر ستار کے ریمارکس پر عمران خان نفی میں سر ہلاتے رہے، عمران خان نے ایک دفعہ شعیب شاہین کو روسٹرم پر جانے کا کہا، عمران خان کے کہنے پر شعیب شاہین دوبارہ روسٹرم پر چلے گئے، شعیب شاہین نے شہباز گل کیس پر بولنے کی کوشش کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ شہباز گل کیس کی بات نہ کرے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کی کسی میڈیکل رپورٹ میں ان پر تشدد ثابت نہیں ہوا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دئیے کہ شہباز گل کیلئے 6 میڈیکل بورڈز بنائے گئے،
14 ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا،کسی نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا،کیا آپ نے یہ بات عمران خان کو نہیں بتائی؟۔شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے کنفرم کیا تھا کہ جسم پر نشانات تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر غالب آئے گا یا جوڈیشل آرڈر؟۔حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، عدالت کہتی ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں،
عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا انکا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے، حامد خان نے کہا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کون یہ تاثر دیتا ہے؟ میں آپکی بات کو سمجھ نہیں سکا۔حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آج تک کسی لیڈر نے اپنے فالوور کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکا ہے؟
اس سوشل میڈیا کا اصل شکار عدالتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا۔اپنے دلائل کے دوران حامد خان نے فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس پر نہ جائیے گا یہ فیصلہ آپکے خلاف جائے گا، فردوس عاشق اعوان کیس کا فیصلہ تب دیا گیا جب وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کی تاہم انہیں علم نہیں تھا،اب اس فیصلے کے بعد آپ یہ دلیل تو نہیں دے سکتے کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہو گی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائیکورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟ یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں عدالت یا ججز کو سکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا، نہال ہاشمی نے معافی بھی مانگی ،
نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی تاہم سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی،ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کرینگے،یہاں کریمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھر میں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے، جسٹس بابر ستار نے فواد چوہدری کے خلاف ایک درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی، وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپ کو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟
کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔حامد خان نے کہا کہ جی مجھے اس حوالے سے معلوم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہائیکورٹ کے باہر لوگ لے آئیں گے، وہ دھمکی دے رہے ہیں، آپ کو بار بار سمجھایا تھا کہ سوچ سمجھ کر جواب جمع کرائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے جواب میں بار بار افسوس کا اظہار کیا ہے، ہم نے عدالتی ہدایت پر افسوس کا لفظ استعمال کیا ہے، ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران خان آئندہ مزید محتاط رہیں گے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے
جس کے بعداٹارنی جنرل اشتراوصاف نے دلائل شروع کئے ۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اْس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے ایک بار معاف کر دیا تھا تو بار بار معاف کریں، عمران خان کے جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں ہے، عمران خان کو شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ دینا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ عمران خان نے شرمناک کا لفظ استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، 8 سال پہلے بھی عمران خان نے سپریم کورٹ سے معافی مانگی تھی، اس وقت بھی میں نے عمران خان کا یہی بیان سنا تھا،عمران خان اگر توہین آمیز الفاظ نہ کہتے تو آج یہاں کھڑے نہ ہوتے۔اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف کے بعد عدالتی معاون ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ شوکاز نوٹس میں تین قسم کے الزامات لگائے گئے۔منیر اے ملک نے کہا کہ جب گفتگو کی گئی تو معاملے کا جج نے فیصلہ کردیا تھا تاہم ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمْو پذیر ہے۔انہوںنے کہاکہ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر تقریر کااثر پڑا۔عدالتی معاون نے کہا کہ الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔منیر اے ملک نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا، اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اسلم بیگ کون تھے اور کہا کہ چلیں آگے چلیں، جس کے بعد منیراے ملک نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں، کسی اور کا مؤقف پیش نہیں کر رہا۔منیر اے ملک نے عمران خان کے جواب پر توہین عدالت کیس ختم کرنے کی استدعا کر دی اور اس کے ساتھ ہی ان کے دلائل مکمل ہوئے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا کہ کیا ماتحت عدلیہ کا بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدلیہ ہماری ریڈلائن ہے، جلسے میں خاتون جج کا نام لے کر بہت کچھ کہا گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کارروائی کو ختم کرنا چاہیے۔عدالت کے دوسرے معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا تو وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا وہ نکالتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ امریکا میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکائونٹ معطل ہوا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر کے لییالفاظ کا چناؤ کتنا اہم ہے۔عدالتی معاون نے اس موقع پر کہا کہ ایک لیڈر کی جلسے میں کہی گئی بات عدالتی کارروائی پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، اسلام آباد میں سیاسی معاملات زیادہ ہیں۔مخدوم علی خان نے بھی منیر اے ملک کی طرح عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کردی اور کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کردے۔
نجی ٹی وی کے مطابق عدالتی معاون کے رائے پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں ہے، سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ریمارکس ہوتے تو جواب ایسا نہ ہوتا۔بینچ میں شامل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کو ایک موقع دیا تھا، عدالت کو عمران خان کے کنڈکٹ میں وہ بات نظر نہیں آرہی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے گھبرانا نہیں چاہیے وہ قابل اعتبار ہی نہیں ہے۔عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ چند کیسز میں سے ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ واحد کیس ہے،
ایک جماعت کے لیڈر نے ماتحت عدلیہ کے جج کے بارے میں کہے الفاظ پر ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کیس سن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس عدالت کی کارروائی کا پیغام جا چکا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہی نہیں۔عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت عمران خان کو مزید موقع دے سکتی ہے، عمران خان اپنے مفصل جواب میں افسوس اور معذرت کے الفاظ استعمال کریں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا کسی کی انا ماتحت عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے، عمران خان کے جواب میں غیرمشروط معافی کی بات بھی نہیں کی گئی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس میں پچھتاوے کا اظہار کیا جا چکا ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کریں۔عدالت کے تیسرے معاون پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین کن دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس درست طور پر جاری کیا گیا۔اختر حسین نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگی گئی، اگر غیر مشروط معافی مانگی جاتی تو میں بھی کہتا ختم کر دیں۔عدالت نے اس کیساتھ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے یا نہ بڑھانے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عدالیہ نے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہاکہ دو ہفتوں بعد عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔