کراچی(این این آئی)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں آئی ایم ایف کے قرضہ سے دس گنا زیادہ ہیں مگراس بار عالمی ادارہ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کوکسی قسم
کی رعایت دینے کوتیارنہیں ہے بلکہ اپنی سخت شرائط منوانے پر بضد ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنا حکومت کے لئے ایک چیلنج ہوگاجبکہ دوصوبوں کے عدم تعاون سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ان مشکل حالات میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے 300 یونٹ ماہانہ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے خاتمے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ حکومت دو ہزار روپے ماہانہ کی ڈائرکٹ سبسڈی کو بڑھا کر تین ہزار روپے ماہانہ کرنے پر بھی غور کرے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ڈیمانڈ میں زبردست کمی واقع ہوگی جس کے اثرات گاڑیاں، ٹریکٹر اوراسٹیل بنانے والوں پرسب سے زیادہ ہیں اوریہ بتدریج دیگر شعبوں پربھی اثراندازہوں گے۔ ابتدائی طورپرکنسٹرکشن انڈسٹری کوزبردست نقصان ہوگا مگرتعمیرنوشروع ہونے سے یہ صنعت بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی شرح نمو اس سال ساڑھے تین فیصد جبکہ مہنگائی بیس فیصد رہنے کا امکان ہے۔ سیلاب پانچ ہزارکلومیٹرسے زیادہ سٹرکیں، پل چھوٹے ڈیم اورریلوے لائنیں بہا کرلے گیا ہے جس کی بحالی موجودہ اقتصادی حالات میں غیرملکی سرمایہ کاری کے بغیرناممکن ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ سڑکوں کی تباہی سے کمپنیوں کو اپنی مصنوعات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں زبردست دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے مجموعی صورتحال متاثرہورہی ہے۔
سیلاب سے سب سے پہلے زراعت متاثرہوئی ہے جسکے بعد بڑی صنعتوں کونقصان ہوا ہے مگراس سے چھوٹی صنعتیں، عام کاروباراورخدمات کا شعبہ بھی نہیں بچ پائے گا۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ کرونا وائرس کی وباء کے دوران ترقی یافتہ ممالک اورعالمی اداروں نے بڑی کثیرالعقوامی کمپنیوں کواربوں ڈالرکی امداد دی جس سے زیرگردش سرمایہ بڑھ گیا جس نے زبردست مہنگائی کوجنم دیا ہے جسے اب تک ساری دنیا بھگت رہی ہے اس لئے اب یہ ادارے محتاط ہو گئے ہیں۔