اسلام(نیوز ڈیسک) اسلام آباد میں ہونے والی ایک اہم ویڈیو کانفرنس میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ریل رابطوں پر پیش رفت ہوئی ہے۔ اجلاس کے دوران دو نئی فریٹ ٹرین سروسز— “پاکستان-آذربائیجان ایکسپریس” اور “پاکستان-ایران-آذربائیجان”— کے آغاز کے امکانات پر تفصیل سے غور کیا گیا۔اجلاس میں پاکستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے ریلوے و خزانہ بلال اظہر کیانی جبکہ آذربائیجان کی طرف سے ریلوے بند کمپنی کے نائب چیئرمین عارف آغایوف نے اپنے وفود کی قیادت کی۔
وزارت ریلوے کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، بات چیت میں سامان کی ترسیل، بندرگاہی اشتراک، مشترکہ سرمایہ کاری اور وسطی ایشیائی راہداری سے متعلقہ ممکنہ تعاون کے نکات زیرِ غور آئے۔دونوں ممالک نے ریلوے اور تجارتی شعبے میں مضبوط شراکت کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپس قائم کرنے پر اتفاق کیا، جن میں متعلقہ وزارتوں کے افسران شامل ہوں گے۔اجلاس کے دوران سیکریٹری ریلوے بورڈ محمد یوسف نے پاکستان ریلوے کے نیٹ ورک کا جائزہ پیش کیا، اور ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے معاہدے پر بھی بات چیت کی گئی۔ آذربائیجان کی ریلوے اتھارٹی نے ٹرانس-کاسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ روٹ (TITR)، جسے مڈل کوریڈور بھی کہا جاتا ہے، پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ یہ راہداری چین سے یورپی یونین تک کارگو کی منتقلی کو وسطی ایشیا، قفقاز اور ترکی کے راستے ممکن بناتی ہے۔
اجلاس میں جنوبی ایشیا سے یورپ تک کارگو کی ترسیل کے مختلف راستوں پر تبادلہ خیال ہوا اور ایک ایسی کثیرالمقاصد راہداری کے قیام پر اتفاق کیا گیا جو چین، پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان کے راستے آذربائیجان سے گزر کر یورپ تک جائے گی۔پاکستان، افغانستان اور ازبکستان پہلے ہی اس راہداری کے لیے فریم ورک معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں، جس کے تحت تجارتی امکانات 292 ارب ڈالر تک جا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ازبکستان اور پاکستان نے فزیبلٹی اسٹڈی پر مساوی سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دیا ہے۔بلال اظہر کیانی نے اس موقع پر کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف ریلوے کے شعبے کی جدید کاری کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہے ہیں، اور آذربائیجان کے ساتھ ریل کے ذریعے تجارت کو فروغ دینا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کے ماہرین نے کراچی سے روہڑی تک 480 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا معائنہ کیا، جو ایم ایل-ون منصوبے کے تحت اپ گریڈ کی جا رہی ہے۔ اس اپ گریڈ سے نہ صرف ریکوڈک منصوبے تک رسائی میں آسانی ہو گی بلکہ تھر کے کوئلے کی ترسیل میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔