لاہور(این این آئی) ملک میں شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے تناظر میں پنجاب اسمبلی کے ایوان میں کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی گونج سنائی دی، ارکان اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ اگر مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنا ہے اور حکومتی سرمایہ بچانا ہے،
تو کالا باغ ڈیم سمیت تمام ضروری آبی ذخائر کی فی الفور تعمیر کو یقینی بنانا ہوگا، سیلاب کی تباہ کاریوں کا تخمینہ لگانے کیلئے جوڈیشنل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کااجلاس ایک گھنٹہ 52منٹ کی تاخیر سے سپیکر سبطین خان کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں محکمہ سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال سے متعلق سوالوں کے جوابات متعلقہ وزیر غضنفر عباس چھینا نے دئیے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران لیگی رکن ملک ارشد نے صوبائی وزیر غضنفر عباس چھیناکو دلچسپ انداز میں مبارکباد دی۔ ملک ارشد نے کہا کہ مجھے پتہ ہے غضنفر عباس چھینانے وزیر بننے کے لیے بہت تگ و دو کی ہے،خیر جیسے بھی وزیر بنے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔جہیز فنڈ کے استعمال سے متعلق غلط جواب پر ملک ارشد اور صوبائی وزیر بیت المال کے درمیان تکرار بھی ہوئی۔ ملک ارشد نے کہا کہ میرے سوال کا جواب محکمے کی جانب سے غلط جواب دیا گیا ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ بیٹھ جائیں میں آپ کے خدشات دور کر دیتا ہوں جس پر ملک ارشد نے کہا کہ میں یہاں نہیں بیٹھوں گا آپ میرے ساتھ ساہیوال چلیں وہاں بیٹھیں گے۔اس موقع پر سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے صوبائی وزیر بیت المال کو ہدایت کہ وہ ملک ارشد کے ساتھ ساہیوال میں جاکر مسئلہ حل کریں۔
اجلاس میں یونیورسٹی آف کمالیہ بل 2022 دوبارہ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔وزیر پارلیمانی امور راجہ بشارت نے یونیورسٹی آف کمالیہ بل ایوان میں پیش کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر)ہاشم ڈوگر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں سول آمریت چل رہی ہے،میڈیا پر پابندیاں ہیں،ملک میں سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروفاقی وزیر داخلہ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں،
سوشل میڈیا کی خبریں ملکی مفاد میں نہیں ہوتیں،میڈیا کے ساتھ وفاقی حکومت جو رویہ اپنا رہی ہے انہیں بھیانک خواب آیا کریں گے۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سیلاب پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی وزیر حسنین بہادر دریشک نے کہا کہ دو ہزار دس میں سیلاب آیا تھا دریائے سندھ میں دس لاکھ کیوسک تک پانی آیا تو پھر شہروں کے درمیان پانی ہی پانی تھا، یقین دہانی کرواتا ہوں ڈی جی خان اور راجن پور میں ایسا اقدام اٹھائیں گے کہ مسائل حل کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہمارے مسائل کو سنجیدہ ہی نہیں لیاجاتا،کہتے رہے دس سال سے چناب چنیوٹ اپنا رخ تبدیل کررہا ہے،زرعی زمین دریا برد ہو رہی ہیں،چنیوٹ والے لوگ بہت خوشحال تھے لیکن سیلاب سے وہ بے زمین ہوگئے،لوگ بے گھر اور فصلیں تباہ ہو گئیں، لوگ سڑکوں پر پر آ گئے ہیں، لوگوں کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں،
انہیں لوگ سالن روٹی دے رہے ہیں،اے سی چنیوٹ اتنے نواب ہیں کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں آنا پسند نہیں کرتے،ہم افسر شاہی کی نذر ہوئے ہیں،لوگوں کا کیا قصور ہے ان کا نمائندہ لوٹا نہیں ہوتا،رولنگ دیں کہ چنیوٹ میں سرکاری زمین پر بے گھر لوگوں کو پانچ سے دس مرلہ جگہ دیں۔سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے ہدایت کی کہ ڈی سی چنیوٹ سے پوچھیں کہ لوگوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
جواب میں پارلیمانی امور کے وزیر راجہ بشارت نے کہا کہ اے سی بھوانہ سے بھی اس حوالے سے رپورٹ منگوا لی ہے۔ اس موقع پر پنجاب اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی گونج سنائی دی۔ پی ٹی آئی کے وزیر چودھری ظہیر الدین نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم بنایا جائے تاکہ سیلابوں سے بچا جائے، جس طرح سیلاب آ رہے ہیں ہمیں کالا باغ ڈیم بنانا ہوگا،کالا باغ ڈیم میں دس ملین ایکٹر پانی ذخیرہ ہوگا،
پچیس ملین ایکٹر پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے مزید آبی ذخائر کی ضرورت ہوگی،ڈیموں کو بنانے کیلئے ایک سکیم ہونی چاہیے کہ انیں نہروں تک الترتیب پہنچایا جائے، پاکستانیوں پر سیلاب کی شکل میں ایک عذاب آیا ہے، جو سیلاب سے متاثر ہوئے انہیں سرکاری زمین دی جائے،جو ہوٹل سیلاب میں گرے ہیں اس کے بعد ایس او پیز طے کئے گئے ہیں کہ دریا ؤں سے دو سو گز دور ہوٹل بنائیں گے، لوگ پانی اورآگ کے عذاب کے بعد خوف کے عذاب میں بھی مبتلا ہیں۔
35 ملین ایکٹر پانی سمندر برد کیاجاتا ہے جبکہ دس ملین ایکٹر فصلوں کو درکار ہوتاہے۔رکن اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیلاب پر دنیا ہمدردی اور مدد کرنے کیلئے پہنچ گئی ہے، وفاقی حکومت اور وزیر اعظم سیلاب زدگان کی مدد کیلئے کوشاں ہے، ویر اعظم ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں،کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، متاثرین کے پسا ادویات اور کھانا نہیں ہے،گھر مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں،
سیلاب سے مویشی بہہ گئے،لوگوں کے پاس گھر اور نہ ہی زمین رہی۔سیلاب کی صورتحال پر اجلاس تو چل رہا ہے ممبران کی عدم دلچسپی ہے اسے ختم کردیں تاکہ ممبران حلقوں میں جاکر متاثرین کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیر اعلی کو ایوان میں موجود نہیں ہونا چاہیے،پرویز الہی اپنے بیٹے سمیت بنی گالہ میں حاضریاں لگوا رہے ہیں متاثرین پر کسی کی توجہ نہیں،عدالتی وزیر اعلی کو جنوبی پنجاب کے عوام ڈھونڈ رہے ہیں کدھر ہیں،اس قیامت میں آپ کو جوابدہ ہونا چاہیے تھا ہم تو حکومت میں نہیں ہیں۔
سپیکر سبطین خان نے کہا کہ سب جماعتیں حکومت میں ہیں کوئی بھی اپوزیشن میں نہیں،پرویز الٰہی عدالتی وزیر نہیں بلکہ منتخب وزیر اعلی ہیں۔راجہ بشارت نے کہا کہ اللہ کی طرف سے ہی سب کچھ ہوتا ہے دو مہینے حکومت میں رہے انہیں سابق وزیر اعلی لکھنے کی بھی ہمت نہ رہی، پرویز الٰہی ایوان کا اعتماد لے کر وزیر اعلی بنے ہیں۔پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی شاہدہ احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ قوم کی یکجہتی کا وقت ہے، عمران خان نے دو گھنٹے میں پانچ سو کروڑ اکٹھا کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ یہ کون سی قوم ہے،
قوم جذبے کے ساتھ سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑی ہے، مودی سرکار کے یار بولیں اور بھارت کو کہیں کہ پانی کو پاکستان میں نہ چھوڑنے۔سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ سیلاب کا پانی ملین ڈالر واٹر ہوتا ہے،کسی نے نہری نظام بنانے کی کبھی کوشش کی،دو ہزار پچیس میں پاکستان پانی کے قحط میں جا رہا ہے، بارش نوازش کے بجائے وبال بن جاتی ہے،لاہور میں لکشمی چوک میں شہبازشریف بوٹ پہن کر آ جاتے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا تاکہ بارش کا پانی جمع نہ ہو،
واسا نے گیارہ انڈر گراؤنڈ ٹینکس بنانے تھے لیکن ابھی صرف دو ہی بنائے جا سکے ہیں،پی ٹی آئی حکومت نے دو انڈر گرؤانڈ ٹیکس بنائے تو لکشمی چوک میں پانی جمع نہیں ہوتا،چار گھنٹے میں پانچ سو ارب روپے عمران خان نے ٹیلی تھون سے اکٹھے کئے،اب بلاول اور شہباز شریف کو بھی ٹیلی تھون کرنے چاہئیں، اکٹھے بیٹھ کر سوچیں ڈیمز نہریں اور ذخائر بنائیں تاکہ آئندہ نسلیں یاد رکھیں۔مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی مہوش سلطانہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم کی کاشت کا وقت آنے والا ہے تو بیج ضائع ہو چکے ہیں،
کپاس کی فصل تباہ ہو چکی ہے،سیلاب سے جانوروں کا بھی بہت نقصان ہوا اس کا تخمینہ لگا کر جانور فراہم کئے جائیں،ہمیں چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جائیں،کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے بنانے چاہئیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو سکے،بھارت نے پانچ ہزار اور ہم نے تین سو ڈیم بنائے ہیں،فنڈز اکٹھا کرکے متاثرین کی مدد کی جائے،ضرورت کے مطابق اشیائے ضروریہ دی جائیں، وہ سامان بھی دیا جارہا ہے جس کی سیلاب زدگان کو ضرورت نہیں، پاکستان گلوبل وارمنگ میں دسویں نمبر پرہے اگر کوئی اقدام نہ اٹھایا تو ملک کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
ظہیر عباس کھوکھر نے خطاب میں کہا کہ سیلاب زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرناچاہتے ہیں،جب بارش جیسی رحمت کو نہیں پہچانیں گے تو وہ مصیبت بن جاتی ہے، سیلاب زدگان کی گاڑیوں پر حملے ہورہے ہیں، سامان لوٹا جا رہاہے، جوڈیشل کمیشن بنائیں تاکہ سیلاب سے جوجانی و مالی نقصان سے ہوا ہے اس کا تخمینہ لگایا جا سکے،جوڈیشل کمیشن سیلاب کے نقصانات کا جائزہ لے،آفت کی وجوہات پتہ لگائے، گزشتہ حکومتوں کا بھی قصور ہے کہ سیلاب پر کچھ نہیں کیا۔سیمابیہ طاہر نے اپنے خطاب میں کہا کہ امدادی سامان ساتھ لے کر گئے تو بہت دکھ ہوا کہ وہاں بہت بربادی ہوئی ہے، سیلاب سے خواتین بچوں کی اموات ہوئی ہیں،انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔اجلاس سات ستمبر بروز بدھ سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔