لندن ( آن لائن) پاکستان میں اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بظاہر موجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکانات کم لگتے ہیں۔بی بی سی کی ایک رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ ایک روز قبل کاروبار کے اختتام پر ایک ڈالر کی قیمت 239.94 روپے پر بند ہوئی تھی۔ ڈالر کی قیمت میں روزانہ کی بنیادوں پر تین سے چار روپے اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔19جولائی کو صرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے کا اضافہ ہوا جو ملکی تاریخ میں ایک دن میں سب سے اضافہ ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان او ر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جولائی کے وسط میں قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے سٹاف لیول معاہدہ طے پایا۔رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اگست میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام آنے کا امکان ظاہر کیا ہے تاہم کرنسی اور مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق یہ استحکام اسی وقت آ سکتا ہے جب پاکستان کو بیرونی ذرائع سے فنانسنگ شروع ہو جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے۔ماہرین پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران پر بھی تشویش کا اظہار کر تے ہیں جو ان کے مطابق معاشی اشاریوںکے لیے منفی ثابت ہو رہا ہے اور اس کا اثر ڈالر اور روپے کی قدر پر بھی ہو رہا ہے۔ان کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے گی کیونکہ پاکستان اپنی توانائی اور خوردنی ضروریات کے لیے درآمدی اشیا پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر کے مہنگا ہونے سے مزید مہنگی ہو جائیں گی۔گذشتہ سال اگست کے مہینے میں
ایک ڈالر کی قیمت 155 سے 160 روپے کے درمیان موجود تھی۔پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے قیام کے وقت یعنی گیارہ اپریل کو ایک ڈالر کی قیمت 182 پر موجود تھی جس میں تسلسل سے اضافہ جاری رہا اور 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال پر ڈالر کی قیمت 205 روپے کی سطح تک پہنچ گئی۔ا?ئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے سے ایک دن پہلے ایک ڈالر کی قیمت 210 پر بند ہوئی تھی جس
میں معاہدے کے بعد ایک ڈیڑھ روپے کمی ہوئی تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور ڈالر کی قیمت جمعرات کے روز 240 روپے کے قریب بند ہوئی۔نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک ڈالر کی قیمت میں 60 روپے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں ڈالر کی قیمت میں 55 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یوں حکومتی اتحاد کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم
شہباز شریف روپے کی قدر میں استحکام لانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔جولائی کے وسط میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے سے پہلے جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا تو اس کی وجہ اس معاہدے میں تاخیر کو قرار دیا جا رہا تھا۔تاہم جولائی کے وسط میں معاہدہ طے پانے کے باوجود ڈالر کی قیمت میں اضافہ جاری ہے، جس کے بارے میں کرنسی مارکیٹ سے وابستہ افراد اور مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق اس کا اثر ایک،
دو دن ہی رہا اور اس کے بعد ڈالر نے ایک بار پھر اوپر کی سطح کی جانب سفر جا ری رکھا۔فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف معاہدے کا اثر ایک آدھ دن رہا تاہم اس کے بعد جب ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تو اس نے ملک میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا اور روپے نے اپنی قدر کھوئی۔‘انھوں نے کہا کہ ’حالات سے لگ رہا ہے کہ ابھی مزید سیاسی کشیدگی بڑھے گی جو معیشت کے لیے منفی ثابت ہو گی۔‘