ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عدلیہ کا کام تشریح کرناہے ، ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا 3 جج آئین تبدیل کردیں،بلاول بھٹو

datetime 27  جولائی  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زر داری نے کہا ہے کہ عدلیہ کا کام تشریح کرناہے ، ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا 3 جج آئین تبدیل کردیں،ایسے نہیں ہوسکتا ہمارے لیے ایک اورلاڈلے کے لیے دوسرا آئین ہو،مانتا ہوں دھمکی میں

آکر19ویں ترمیم پاس کی، ہمیں آئین کوتبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا،2018کے الیکشن میں ثاقب نثارہمارے خلاف الیکشن مہم چلارہا تھا، اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ کا کردارمتنازع نہیں ہونا چاہیے، جوڈیشل ریفارمزکرنے تک جمہوریت کا سفرنامکمل ہوگا،پارلیمان سے متعلق کیس میں تمام ججز کو بٹھا کر فیصلہ کرنا ہوگا،آئین شکنی، جمہوریت کے خلاف کام بنی گالہ سے ہویا کسی اورجگہ سے انصاف کرنا ہوگا، پاکستان میں دو آئین نہیں چلیں گے ،اگرہم یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر اسمبلی کوتالا لگادیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم کسی ادارے کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے، صرف یہ گزارش کی تھی فل کورٹ بیٹھ کر فیصلہ سنا دے، ہم نے کہا تھا فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوا ہم مانیں گے، یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر نہیں تھا، ڈپٹی سپیکررولنگ کے حوالے سے ہمارا فل کورٹ کا مطالبہ تھا۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے آئین توڑا میرا تب بھی یہی مطالبہ تھا، آئین پاکستان کی تشکیل کیلئے 30 سال کا عرصہ لگا، شہید بے نظیربھٹونے آئین کی بحالی کیلئے جدوجہد کی، آئین میں ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت درکارہوتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ صوبوں کوحقوق دینے کے لیے اٹھارویں ترمیم لائے،

ہردن عوام کے مینڈیٹ اور جمہوریت پرحملے ہوتے رہے، عدلیہ بحالی تحریک، کراچی کے جیالوں کو گولیاں ماری گئیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ افسوس کے ساتھ ایک گروہ پیدا ہوا تاکہ وہ کنٹرولڈ جمہوریت چلا سکے ، نیا 58/ ٹو بی کا اختیار اب عدالت کے پاس چلا گیا ہے جبکہ پہلے یہ اختیار صدر کے پاس تھا، ہر روز عوام کے مینڈیٹ اور منتخب ایوان پر حملہ ہوتا رہے، افتخار چوہدری نے کسی کے ہاتھوں میں آکر ایسے فیصلے دیئے جو آئین اور قانون

کے مطابق نہیں تھے۔بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ ہم اپنا کام کرتے رہے اور جمہوریت کو بحال کیا۔ انہوںنے کہاکہ کبھی ٹماٹر، کبھی آلوؤں کی قیمت پر سوموٹولیتے تھے، ہم نے ملک اورقوم کے ساتھ جوڈیشل ریفارمز کا وعدہ کیا تھا، جوڈیشل ریفارمزیہ ہاؤس کریگام۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین نے کہا کہ مانتا ہوں دھمکی میں آکر19ویں ترمیم پاس کی، ہمیں آئین کوتبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا، اس وقت کی اپوزیشن شاید اس قسم کی جوڈیشل ایکٹوزم سے خوش

تھی، ٹوتھرڈ میجورٹی رکھنے والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ انہونے کہاکہ 2018ء کے الیکشن میں چند ججز کا رول تھا، صاف نظر آرہا تھا چند ججزالیکشن کمپین میں حصہ لے رہے تھے، ثاقب نثارہمارے خلاف الیکشن مہم چلارہا تھا، پولنگ والے دن فیصل صالح حیات الیکشن جیت رہا تھا، ثاقب نثارنے ری پولنگ کی مخالفت کی تھی، یہ جناب سپیکرمتنازع کردارہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سلیکٹڈ نظام بٹھانے کے لیے کردار آئینی نہیں متنازع

کردارادا کررہے تھے، ہم چاہتے ہیں وہ متنازع نہیں آئینی کردارادا کریں، اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ کا کردارمتنازع نہیں ہونا چاہیے، یہی وجہ تھی ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ ایسے نہیں ہوسکتا ایک آئین نہیں، دوآئین اوردوپاکستان ہو، مجھے فرق نہیں پڑتا پرویزالٰہی یا حمزہ شہبازوزیراعلیٰ پنجاب ہو، ایسے نہیں ہوسکتا ہمارے لیے ایک اورلاڈلے کے لیے دوسرا آئین ہو، ہمارا کام آئین بنانا اورعدلیہ کا کام تشریح کرنا ہے، خود ترمیم لانا نہیں، ایسا

نہیں ہوسکتا کہ تین جج آئین تبدیل کردیں۔انہوںنے کہاکہ ایک فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ کی ہدایات ضروری ہے، دوسرے فیصلے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات ضروری ہیں، عدالتی اصلاحات کے بغیر جمہوریت کا سفر نا مکمل ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس نہیں ہے، سپیکر صاحب میرا مطالبہ ہے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، یہ ہم طے کریں گے پارلیمان سے متعلق کیسز میں کتنے ججز کو بیٹھنا چاہئے،

پارلیمان سے متعلق کیس میں تمام ججز کو بٹھا کر فیصلہ کرنا ہوگا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے جس میں ہم قانون سازی کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کتنے ججز کو بنچ میں بیٹھنا چاہیے، اگراسپیکرکی رولنگ پرفیصلہ سنانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ مگر پورے ججز کو بٹھانا ہو گا، جناب سپیکر آپ قدم بڑھائیں، پیپلزپارٹی جوڈیشل ریفارمزکیلئے تیارہے۔ انہوںنے کہاکہ ایک رات کی نیوٹریلٹی سے 70سال کے گناہ معاف نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہاکہ شہبازشریف کے پاس مسائل کوحل کرنے کے لیے جادوکا چراغ نہیں،

عوام کوپتا ہے خان صاحب نے تاریخی قرض لیے، ماننے کوتیارنہیں عوام اس قسم کے لوگ کومعاف کرنے کو تیارہوں گے، ہمیں ڈٹ کراس مسئلے کوحل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ آئین شکنی، جمہوریت کے خلاف کام بنی گالہ سے ہویا کسی اورجگہ سے انصاف کرنا ہوگا، اگرہم یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر اسمبلی کوتالا لگادیں ہم کیوں خوارہوتے ہیں، وقت آگیا ہے جمہوریت کا نعرہ نہیں قانون سازی کریں، پارلیمان میں وہ طاقت ہے ہر مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔بلاول نے کہا کہ جناب سپیکر آج ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں، سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس نہیں تمام ججزپرمشتمل ہے، آئین سازی پارلیمنٹ کا اختیارہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…