اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں ایوان کو گواہ بنا کر کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے، ہم اس کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے ، جھکیں گے نہیں، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے،
میں اپنی کوششیں کرتا رہونگا ،وفاقی حکومت قطعاً کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہے گی، جو ہم نے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس میں مزید اضافہ کریں گے،معزز ایوان پاکستان کے آئین کی ماں ہے،یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا،75 سال گزرنے کے باوجود آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، ملک میں ایک سے زائد بار مارشل لا آئے، جو کئی دہائیوں تک ملک پر مسلط رہے، جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا، اور جمہوریت کا پودا اتنا طاقتور نہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، سب جانتے ہیں 2018 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بدترین جھرلو الیکشن تھے،پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اس وقت متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو ریاست کا خدا حافظ تھا،غیر ملکی ایجنٹ یہ ہیں، چیف الیکشن کمیشن کیوں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟ایک لاڈلے کو 15 سال دودھ پلایا گیا اور اس کو لا کر بٹھایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے وہ کام کرتے تھے آج ہم سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوتی ہے، 75 سال میں کسی کو ایسی سپورٹ نہیں ملی اور نہ کبھی کسی کو ملے گی،اگر اس طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی رہے۔ گیوزیراعظم شہباز کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ان طوفانی بارشوں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، چترال، کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں
بے پناہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، اور بے پناہ نقصانات ہوئے، اللہ سے دعا ہے کہ جانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، اور زخمیوں کو جلد سے جلد صحت یاب عطا فرمائے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت چوکنا ہے، اس صورتحال کے حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ اجلاس کر چکا ہوں، جہاں لوگ زخمی ہیں اور لوگ اللہ کو پیارے ہوئے اور جہاں مالی نقصانات ہوئے، وہاں پر صوبائی حکومتیں پوری طرح دن
رات کام کررہی ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاق نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں بھرپور طریقے سے وفاقی حکومت شریک ہے، نقصان زیادہ ہے، جو لوگ اللہ کو پیارے ہو گئے ان کے لیے کسی بھی حد تک مالی تعاون ان کے دل کی تسلی نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت قطعاً کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہے
گی، جو ہم نے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس میں مزید اضافہ کریں گے، ایک اور اجلاس بلایا ہے، جس میں متعلقہ قومی اسمبلی ممبران، متعلقہ ادارے اور سرکاری افسران شامل ہوں گے، تمام معزز اراکین کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی سفارشات کے پیش نظر کر ہم مزید فیصلے کریں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ کسانوں کو جو نقصان ہوا ہے، اس حوالے سے بھی بھرپور کردار ادا کریں گے، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو کچھ
کرسکتے ہیں وہ کریں گے، پورے پاکستان میں جہاں پر بھی نقصانات ہیں ان کا مداوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انسانی فطرت ہے کہ جب بچے کو تکلیف ہوتی ہے تو ماں بچے کی طرف دوڑتی ہے اور بچہ ماں کی طرف آتا ہے، یہ معزز ایوان پاکستان کے آئین کی ماں ہے، 1973 کا متفقہ آئین ہے، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو
کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی واحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔انہوںنے کہاکہ بدترین وقتوں میں بھی اسی آئین نے پوری دنیا کے سامنے مضبوط و متحد ملک کے طور پر پیش کیا، یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا۔انہوں نے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، وہی مالک اور خالق ہے اس نے
جو اختیار انسانوں کو دیا ہے، اور 22 کروڑ عوام نے اس منتخب ایوان کو دیا ہے، یہ وہ اختیار ہے، جسے مقدس امانت جان کر یہ ایوان اس کو استعمال کرتا ہے، اسی آئین میں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ ہو، آئین نے ان کے اختیارات متعین کر دیے ہیں، آئین بتاتا ہے کہ اپنے دائرے میں رہ کر پاکستان کی خدمت کرنی ہے، اور پاکستان کو آگے بڑھانا ہے۔انہوںنے کہاکہ 75 سال گزرنے کے باوجود آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، ملک میں ایک سے زائد بار مارشل لا
آئے، جو کئی دہائیوں تک ملک پر مسلط رہے، جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا، اور جمہوریت کا پودا اتنا طاقتور نہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، پارلیمان کی طاقت اس طرح ابھرکر سامنے نہ آسکی جس طرح اس کو آنا چاہیے تھا۔شہباز شریف نے کہ قرب و جوار میں نظر دوڑائیں تو وہ ممالک جو بہت پیچھے تھے، آج ترقی کی دوڑ میں وہ آگے نکل چکے ہیں، اغیار نے آئی ایم ایف کو کبھی کا خیرباد کہہ دیا، غربت اور بیروزگاری کو انہوں نے
دفن کر دیا۔انہوںنے کہاکہ جناب اسپیکر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب جانتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، ایک ایسی حکومت کو مسلط ہو گئی جو صریحاً دھاندلی کی پیدوار تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کس طرح رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس سسٹم بند ہو گیا اور کس طرح نتائج وہ دیہاتوں میں پہلے آگئے اور شہروں میں کئی کئی دن نتائج نہیں آئے، امیدواروں کا جو حق تھا اس کو سابق
چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا، وقت پر گنتی نہ ہوئی۔انہوں نے کہا کہ 2018 کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی، ساڑھے تین، پونے چار سالوں میں ان کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے، انہوں نے 20 ہزار ارب روپے سے زائد کے قرضے لیے، 2018 میں جی ڈی پی 5.8 فیصد تھا، 2019 اور 2020 میں آ کر منفی میں آ گئی، لاکھوں لوگوں کو روزگار دینا تو دور کی بات تھی، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، لاکھوں لوگ
بیروزگار ہو گئے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اس وقت متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو ریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے مل کر مشاورت کی کہ فیصلہ کیا کہ ریاست کو بچانا ہے، ریاست کو نہ بچایا تو سیاست صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی، ہم جانتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، جانتے تھے کہ معیشت کو بحال کرانا آسان کام نہیں۔انہوںنے کہاکہ ہم جانتے تھے کہ مہنگائی، بیروزگاری
عروج پر ہے، کیا ہم چور دروازے پر آئے؟ یہ پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس پر کسی نے چڑھائی نہیں کی بلکہ یہ ایوان ووٹ کی طاقت سے آئین اور قانون کے مطابق بدترین کرپٹ حکومت کو بدلا اور چیلنج قبول کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے پتہ تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے کمال مہربانی سے، چاہے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، مگسی، خالد صدیقی یا اے این پی کے
قائدین ہوں، چاہے وہ مینگل صاحب، داوڑ صاحب یا اسلم بھوتانی صاحب ہوں، سب نے مل کر بڑی محبت سے میرے قائد نواز شریف نے منتخب کیا، تو جانتا تھا کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ کانٹوں کا ایک بہت خاردار سفر ہے، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ان کی معاونت قبول کی، وزیراعظم بننا ہوتا تو ماضی میں 1992 میں ایک صدر نے کہا تھا کہ تم وزیراعظم بن جاؤ، بعدازاں جنرل مشرف نے کہا کہ وزیراعظم بن جاؤ، اس کے علاوہ بھی ایسے
راز ہیں جو میرے دل میں دفن ہیں۔انہوںنے کہاکہ جب پانامہ کے بدلے اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو ایک قانونی اور آئینی مجبوری تھی کہ کسی کو وزیراعظم منتخب کرنا تھا، انہوں نے مجھے چنا، لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے پنجاب کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے، میں پنجاب کے منصوبوں کو مکمل کرلوں۔انہوںنے کہاکہ اگر عدالت بلائے تو ہمیں جانا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن فیصلہ انصاف اور حق کی بنیاد پر کرنا ہوگا، یہ نہیں
ہوسکتا کہ میرے ساتھ کوئی اور برتاؤ کریں اور کسی کے ساتھ کوئی اور برتاؤ کریں۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت سے ہم نے جان چھڑوائی، کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کی سب سے زیادہ سطح پی ٹی آئی کی حکومت میں ہوئی، ہم نے دوست ممالک ترکی، سعودی عرب، چین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا، اور پھر یہ کہتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ جب عمران خان امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر آئے تھے تو عمران نیازی نے کہا تھا کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں نے کہا کہ اگر روس سے ہم سستی گندم ملتی ہے تو بہت اچھی بات ہے، میں نے ان ممالک کو بھی بتا دیا کہ ہم نے پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بچانا ہیں، پرسوں ان کی جانب پیش کش آئی ہے، ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہم مؤخر ادائیگی پر گندم خریدیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ غیر ملکی ایجنٹ یہ ہیں، چیف الیکشن
کمیشن کیوں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے، اس کیس کو 8 سال ہو چکے ہیں، اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ عمران خان نے منگوائی، 8 سال یہ کیس ہے کسی نے ازخود نوٹس لیا، پونے چار سالوں میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جس کا مقصد تھا کہ پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر ان کا نام و نشان مٹا دے۔شہباز شریف نے کہا کہ بی آر ٹی پشاور میں اربوں کے غبن ہوئے، ہیلی کاپٹر کیس، مالم جبا کیس اور اس کے علاوہ
مونس الہیٰ کا کیس نیب کرتا ہے کسی نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا، بیٹیاں، بہنیں گرفتار کی گئیں، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، سابق وزیراعظم کی سگی بہن کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو خاموشی سے ایف بی آر سے این آر اور دلوایا جاتا ہے، کوئی نوٹس نہیں لیتا۔انہوں نے کہا کہ حضرت علی کا قول ہے کہ کفر کا نظام رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔شہباز شریف نے کہا کہ میں ایوان کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج ہم نے سچ کو سچ نہ
کہا تو مملکت خداد شدید مشکلات میں گھر جائے گا، میرے منہ میں خاک، پھر جب مؤرخ اس ملک کی تاریخ لکھے گا تو پھر آئندہ آنے والی نسلیں اس پر فیصلے دیں گے، ایک لاڈلے کو 15 سال دودھ پلایا گیا اور اس کو لا کر بٹھایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے وہ کام کرتے تھے آج ہم سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوتی ہے، 75 سال میں کسی کو ایسی سپورٹ نہیں ملی اور نہ کبھی کسی کو ملے گی۔انہوںنے کہاکہ تیل و گیس کی قیمتیں میرے اختیار میں نہیں،
مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوا ہے، تین ڈالر میں گیس مل رہی تھی سابق حکومت نے نہیں خریدتی، آج ڈھونڈنے سے بھی گیس نہیں ملتی۔شہباز شریف نے کہا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے کہا کہ ہنڈی سے پیسہ لاؤ، بجلی کے بل جلا دو، ٹیکس نہ دو، یہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، کسی نے اس پر نوٹس نہیں لیا، ستمبر 2014 میں چینی صدر آرہے تھے تو منتیں کیں کہ تین دن کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤ حتیٰ کہ مقتدر ادارے نے بھی کردار
ادا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے دھرنا ختم نہیں کیا، تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ مارچ میں ڈپٹی اسپیکر، صدر پاکستان اور عمران نیازی نے مل کر دھوکے سے اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش کی، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آئین شکنی کی لیکن انہیں کسی نے نہیں بلایا، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کارروائی کرتے ہیں ، ان کو بلایا جاتا ہے، اگر اس طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی
رہے گی۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر تقدس، مساوت، قانون، آئین اور انصاف کو آگے نہ بڑھایا تو ہمیں تاریخ میں کوئی یاد نہیں رکھے گا، خدانخواستہ تاریخ کے اوراق سے ہمارا نام مٹ جائے گا، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر نے انٹرویو نے کہا کہ مجھے عمران نیازی نے بلا کر کہا تھا کہ شہباز شریف، خواجہ آصف، آصف زرداری، مریم نواز سمیت فلاں فلاں کے خلاف کیس کرو، انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی
ان کو بلا کر نہیں پوچھا۔انہوںنے کہاکہ میں دوہرے معیار کی بات کررہا ہوں، میں ایوان کو گواہ بنا کر کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے، ہم اس کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، جو ذمہ داری مجھے ملی ہے، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے، میں اپنی کوشش کرتا رہا ہوں، نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اگر ہم میں اتحاد اور یکسوئی رہی تو اللہ تعالیٰ کشتی کو پار لگائے گا، اور اگر ہم میں یہ جذبہ رہا کہ لڑیں گے لیکن شکست نہیں مانیں گے۔