اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست سننے کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق کہا ہے کہ اس کیلئے مزید سماعت کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔سپریم کورٹ کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل کے بعد فیصلے کیلئے وقفہ لیا اور وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو فریق بننے کی استدعا منظور کرلی۔عدالت نے کہا کہ کیس میرٹ پر سنیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دینا ہے یا نہیں ابھی اس کیلئے مزید سماعت کی ضرورت ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ نظرثانی کیس پر ابھی دلائل نہیں ہوئے، 12 کروڑ کا صوبہ ہے اور سنجیدہ معاملہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 5 ججوں نے وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا، جس پر وزیر قانون نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معذرت نہ کریں، آپ نے تو مٹھائیاں بانٹی تھیں،ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کیس میں نہیں پیش ہونا نہ ہوں، اگر موجودہ حکومت سپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کر رہی تو یہ بہت سنگین ہے، آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے۔وزیرقانون نے کہا کہ میں نے استدعا کی ہے کہ فل کورٹ بینچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہوگا۔ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس 10 ججوں نے سنا، وہ ایک جج کا معاملہ تھا اور یہ پورے صوبے کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی ظفر صاحب کا اسرار تھا یہی بینچ اس کیس کو سنے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک جج صاحب تھے، جنھوں نے جوڈیشل کونسل کا فورم استعمال کیا۔عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس 10 ججوں نے سنا جبکہ یہاں ایک صوبے کا معاملہ ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا غیرجانب داری پر سوال ہے بلکہ میں کہہ رہا ہوں اگر فل کورٹ بنایا جائے تو عدالت کی تکریم میں اضافہ ہوگا۔
انہوںنے کہاکہ یہ تاثر ہے کہ ایک ہی بینچ میں کیسز چلتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی حاضری بارے میری رائے پر تھوڑی ناراضی نظر آئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بڑے معاملات میں بنایا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے ہمارا فیصلہ فل کورٹ کے حوالے سے دیکھی ہیں، ملک میں گورننس بڑا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر ہم نے از خود نوٹس لیا، اس معاملے میں ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس طویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے ملک میں اچھی طرز حکمرانی بہت اہم معاملہ ہے، ہم نے وفاقی حکومت کے کیس میں ازخود نوٹس لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری نظر میں اسپیکر صاحب نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی جس پر عرفان قادر نے کہا کہ نظرثانی کیس کو اس کیس سے الگ نہیں کر سکتے۔عرفان قادر نے کہا کہ وزیر قانون صاحب کو سپریم کورٹ میں استدعا کرنے کی ضرورت نہیں۔نجی
ٹی وی کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے دلائل دیے کہ اگر عدالت کہہ دے کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار ہوگا تو پھر معاملہ خراب ہو جائے گا۔عرفان قادر نے کہا کہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے فیصلوں میں متحد ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہا، ہم ہیں چلے جائیں گے لیکن آئین کی بالادستی ہونی چاہیے۔عرفان قادر نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ میں بڑا فرق ہے، پرویز الٰہی کو وہ جماعت
وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے، جن کو وہ ڈاکو کہتی تھی۔اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین ملک کے بڑے سیاست دان ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنہوں نے آئین توڑا، ملک کو تباہی کے دہانے پر لے گئے، اب تاثر ہے کہ عدالت ان کو فائدہ دے رہی ہے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ہم نے زیرالتوا کیسز کا سپریم کورٹ پر بوجھ کم کیا، سپریم کورٹ کے سارے جج محنت اور لگن سے زیر التوا مقدمات کا بوبھ کم کررہے
ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مختلف رجسٹریوں میں بیٹھ کر وہ کیسز کی سماعت کررہے ہیں، سوشل میڈیا حقائق نا صرف بیانیہ سنتا ہے، ہم نے اس کیس میں تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیا، یہ عدالت زیر التوا مقدمات نمٹانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ اس کیس میں پارٹی کے سربراہ کی ہدایت ہے، صرف ایک نکتہ دیکھنا ہے کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اوور رول کر سکتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی عام عوام کی اسمبلی میں نمائندگی کرتی ہے، 18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو اختیارات دیے، بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے، افراد کو نہیں۔اس کے ساتھ ہی ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کیے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل شروع
کیے اور کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کا مسئلہ عدالت میں آسکتا ہے یا نہیں، پارلیمنٹ غیر آئینی کام کرے گی تو معاملات عدالت میں آئیں گے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں ووٹ مسترد کرنے کا کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، پارلیمان کے مسئلے عدالتوں میں نہیں آنے چاہئیں، سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب پارلیمان میں
آئین شکنی ہوگی یا غیر قانونی اقدام ہوگا تو معاملہ سپریم کورٹ میں آئے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ حقائق کی بات کر رہے ہیں عدالت کے سامنے ایک قانونی سوال ہے، ماضی قریب آرٹیکل 69 کا کیس آیا تھا، آج آپ دوسری جانب کھڑے ہیں تو کہتے ہیں عدالت کا اختیار نہیں۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے کہا کہ اب وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں، سماعت جمعرات تک ملتوی کردیں کیونکہ مزید دلائل دینا چاہتا ہوں۔جسٹس اعجازالاحسن
نے کہا کہ بات دو دن کی نہیں ہے، عدالت نے تعین کرنا ہے وزیراعلی کا انتخاب درست تھا یا نہیں، سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں، کیسز کا پنڈورا باکس نہیں کھول سکتے۔اس کے ساتھ ہی فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہوگئے۔پاکستان مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے وکیل صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ پارٹی سربراہ نے تمام اراکین کو خط لکھا،
پارلیمانی پارٹی کو میرے خیال میں پارٹی سربراہ احکامات دیتا ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ خط کب لکھے گئے کب ملے عدالت نے یہ سوال پوچھا تھا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے صرف سمجھنے کے لیے سوال پوچھا تھا، اسپیکر نے فیصلہ خط ملنے کے وقت پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کی روشنی میں دیا۔چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ اس معاملے کو فل کورٹ میں طے کیا جانا چاہیے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا
کہ کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں ہے، اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو۔چوہدری شجاعت حسین کے وکیل نے کہا کہ کسی جماعت کا سینیٹر ہو تو وہ کس پارلیمانی پارٹی سے ہدایت لے گا۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے، تھرڈ ورلڈ ممالک میں پارٹی سربراہ کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت
ہے، پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہیے، پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں۔چوہدری شجاعت حسین کے وکیل نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر کو بھیجے خطوط کا ریکارڈ جمع کراؤں گا، کچھ ایسے حقیقت پر مبنی سوالات ہیں جو عدالت میں اٹھائے گئے ہیں اور ان کا جواب دینا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کا معاملہ ہے کہ کون کیسے یہ ہدایت دے سکتا ہے، ووٹ
کا فیصلہ پارٹی سربراہ اور پارٹی کا ہوتا ہے، فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں،آپ 8 ججوں کے فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں تو 9 جج بھی سماعت کرسکتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا، بینچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا، بینچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ توقع نہیں تھی کہ اسمبلی بحال ہونے کے بعد نئی اپوزیشن واک آؤٹ کر دے گی، عدالت نے نیک نیتی سے فیصلہ کیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اپریل 2022 سے آج تک بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے، آپ شاید چاہتے ہیں کہ یہ بحران مزید طویل ہو، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن
سکے گا تو کیا تب تک سب کام روک دیں، فی الحال صرف 2 مزید جج دستیاب ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کے اہم ترین معاملات کو اس لیے لٹکا نہیں سکتے کہ آپ کی خواہش ہے، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے، معیشت کی صورت حال سے ہر شہری کی طرح ہم بھی پریشان ہیں۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے ہے، آج زیادہ ووٹ لینے والا
باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہئیں، جلدی مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جج بھی ویڈیو لنک پر کیس سن سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے الیکشن سے پہلے بھی فریقین کو بلا کر متفق کیا تھا اور حمزہ شہباز کو ضمنی الیکشن تک بطور وزیراعلیٰ برقرار رکھا تھا۔چیف جسٹس
نے کہا کہ حمزہ شہباز نے پرامن اور بہترین ضمنی الیکشن میں کردار ادا کیا، اب وزیراعلی کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر انتخابات ہوئے اور پر امن طریقے سے ہوئے، ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی سربراہ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لیے وزیراعلی ہے، ایسے وزیراعلیٰ
کو جاری رکھنے کے لیے ٹھوس قانونی وجوہات چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوئے بھی موجود وزیراعلیٰ کو کام سے نہیں روکا تھا، الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے، آپ کہہ رہے ہیں پارٹی سربراہ کا کنٹرول ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خود سے سوال پوچھیں کہ آئین کے مطابق کس نے ہدایات دینی ہیں، جس پر وکیل چوہدری شجاعت نے کہا کہ ہم کیس کو بالکل طویل نہیں کرنا چاہتے۔چیف جسٹس
عمر عطابندیال نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں جہاں عدالت انے والوں کو سہولیات دیں، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ امریکا میں جج سیاسی جماعتیں اور حکومتی تعینات کرتی ہیں۔چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ شکر ہے پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے، فاضل بینچ رات کے 7 بجے بھی موجود ہے تو باقی جج بھی خوشی سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔فل کورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ جج دستیاب نہیں ہیں، جس پر وکیل
چوہدری شجاعت نے کہا کہ جو جج دستیاب ہیں وہ بھی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تین ججوں کے علاوہ صرف دو مزید جج شہر میں ہیں۔وکیل صلاح الدین نے کہا کہ وڈیو لنک کے ذریعے بھی جج شریک ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ وڈیو لنک شکایت کنندگان کی سہولت کے لیے ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عدالت نے اسپیکر کے ووٹ مسترد کرنے کے اختیار پر واضح فیصلہ دے رکھا ہے، جس پر
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو کیا اراکین اسمبلی ڈمی ہیں۔مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کے وکیل نے کہا کہ اگر جلسے میں اراکین بیٹھے ہیں اور کہا جاتا ہے فلاں کو سپورٹ کرنا ہے تو کیا یہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تصور ہو گا۔سپریم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر 15 منٹ کے لیے وقفہ کیا گیا۔قبل ازیں سماعت کے آغاز میں عدالت نے سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ہم دیکھ
رہے ہیں کہ بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔لطیف آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی درخواستیں زیر التوا ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہمارے سابق صدور نے اجلاس کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرا
کیس کو سیٹ اپ تو کر لینے دیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے، ہم چاہیں گے فریقین ہماری رہنمائی کریں۔تاہم پرویز الٰہی کے وکیل ایڈووکیٹ علی ظفر نے سابق صدور سپریم کورٹ بار کے مطالبے پراعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ
کے پاس کرسی تو ہے ناں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں، کرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔لطیف آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی زیر التوا ہیں، آئینی بحران سے گریز کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بحران گہرے ہوتے جارہے ہیں، پورا نظام داؤ پر لگا
ہوا ہے، سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے بھی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے فل بینچ بنانے کی استدعا کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے۔عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے حوالے سے آپ اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر 1 اور 2 پڑھ لیں جس سے سب باتیں کلیئر ہوجائیں گی۔عرفان قادر نے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا
ریفرنس بھیجا، آرٹیکل 63 اے کو الگ کر کے نہیں پڑھا جاسکتا، سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے جمہوری نظام خطرے میں آسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کے لیے کینسر کے مترادف ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی
جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر
واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل نے غیر متعلقہ جواب دیا تو ججز نے انہیں پہلے بنیادی سوال کا جواب دینے کی ہدایت کی۔جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں، مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ
دیا وہ بتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہی نقطہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نیانحصار کیا اس کابتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل
کیا گیا، آپ کے سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟۔منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے، 14ویں ترمیم سیآئین میں شامل کیا گیا لیکن 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کی مزید وضاحت کی گئی۔دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول
ہیں، 18ویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے، عدالتی فیصلہ خلاف آئین قرار دینے کے نقطے پر رولز موجود ہیں۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی
نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینئر پارلیمنٹرینز نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے، اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں موروثی پارٹیاں ہیں، ایک سربراہ
باہر بیٹھ کر کیسے ہدایات دے سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی نمائندوں کو آئین میں اختیارات دیے گئے ہیں، اسمبلی میں کس کو ووٹ دینا ہے اس کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے بچایا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے متعلق کئی ارکان نے شکایات کیں، پارٹی سربراہ کو بھی پارلیمانی پارٹی کی رائے سننی ہوگی۔وکیل حمزہ شہباز نے
کہا کہ 4 سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ کے نام پر ہے لیکن مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس
سربراہ بھیجے گا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو، عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے پاس ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا۔اس پر ڈپٹی
اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے پر انحصار کر کے فیصلے سے آگے بڑھ کر رولنگ دی۔انہوںنے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلہ کہ درست تشریح کی، سوال یہ بھی ہے کہ
کیا ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح تو نہیں کی۔ساعت کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں ایک بات پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان ہیں اور ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں، عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منصور اعوان وزیر اعلیٰ پنجاب
کے وکیل ہیں، وہ وزیر قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔منصور اعوان نے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا، الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر فیصلہ کیا، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اس معاملے سے تعلق کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی دیا ہے، آپ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی
پڑھ لیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع ہونے سے پہلے موصول ہو گیا تھا۔منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا، منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب انتخاب
کے پہلے اور اب کے کیس میں فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا مؤقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، منحرف ارکان کا مؤقف تھا کہ ہمیں شوکاز اور ہدایات نہیں ملیں، یہاں پر ایشو مختلف ہے۔
انہوںنے کہاکہ تمام 10 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا، کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں دیا، تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا، دس ارکان میں میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ مقدمے کے میرٹ پر دلائل نہ دیں، فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دیں، دوسری سائیڈ نے فل کورٹ پر دلائل دئیے ہیں، آپ بتائیں فل کورٹ کیوں نہ بنائی جائے، آپ دوسری سائیڈ کی فل کورٹ کی
استدعا کو کیسے مسترد کریں گے؟۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹرین پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلیئریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں کے بعد رائے دے چکی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے۔وکیل پرویز الٰہی نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں مختلف رائے دینے والا بھی فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ
سیاسی جماعت کے سربراہ کی آمریت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، آرٹیکل 63 اے اور اس کی عدالتی تشریح بالکل واضح اور غیر مبہم ہے۔علی ظفر نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، 15 مقدمات میں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے سے انکار کیا ہے، فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 2015 کا عدالتی فیصلہ غیر آئینی ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ عدالت پر مکمل
اعتماد ہونا چاہیے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التوا کیسز کم ہو رہے ہیں۔علی ظفر نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز عبوری وزیر اعلیٰ زیادہ سے زیادہ دیر رہیں،
عدالت نے تحریک عدم اعتماد کیس چار دن میں ختم کر دیا تھا، دیگر مقدمات اس کیس کے ساتھ نتھی کرنے سے صرف وقت ضائع ہوگا، سابق بار صدور کا آنا اور دلائل دینا سمجھ سے بالاتر تھا۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ منحرف ارکان کی اپیلیں اور نظرثانی اس کیس سے منسلک کرنا زیادتی ہوگی، بحران ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے، نظرثانی کی درخواستیں صرف 5 رکنی بینچ ہی سن سکتا ہے، عدالت کے سامنے بڑا سادہ مقدمہ ہے، عدالت پر ہمیں اور پوری قوم کو پورا یقین ہے۔عدالت عظمیٰ نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کر دیا تھا ۔