اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں انکشاف ہواہے کہ1320میگاواٹ کا جامشورو کول پاورپروجیکٹ کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک نے 100ملین ڈالر کا قرض موثرشرائط پوری نہ کرنے پر منسوخ کردیا ،کمیٹی نے حکومت کی طرف سے شرائط پوری نہ کرنے پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ آئی پی پیز نہیں چاہتے کہ پبلک پراجیکٹس مکمل ہوں ۔
اگر آئی پی پیز کے پاس فالتو بجلی ہے تو ایمرجنسی میں انہوں نے پبلک پراجیکٹس کا سہارا کیوں لیا۔کمیٹی نے اپنی سفارشات پر عمل نہ ہونے پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے 15دن میں وزارت سے رپورٹ طلب کرلی، کمیٹی نے سفارش کی کہ پشاور ،کوئٹہ ودیگر تقسیم کار کمپنیوں میں جہاں جہاں افرادی قوت کی کمی ہے وہاں بھرتی کی جائے تاکہ ڈیفیشنسی کو ختم کیاجاسکے۔چیئرمین کمیٹی نے گڈو تھرمل پلانٹ میں دھماکے کا معاملہ اٹھایا جس پر حکام نے بتایاکہ چار ممبران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو آئندہ چند روز میں اپنی رپورٹ مکمل کرے گی۔ پلانٹ میں مینٹیننس کا کام پہلے سے ہی جاری تھا جسے 90 دن میں مکمل کرنا ہے اور اس واقعے کی وجہ سے مزید 20 یا 30 دن کی تاخیر ہوگی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم آئی پی پیزکو پیسے دے رہے ہیں اور اس کے باوجود صارفین کو بجلی دستیاب نہیں ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔
اجلاس کا آغاز سینیٹر کامران مرتضی کی جانب سے ایوان میں اٹھائے گئے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر نیپرا کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ماہ وار کمی اور اضافے سے متعلق عوامی اہمیت کے نکات پر ممبر ٹیرف انجینئر مقصود انور خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹیرف کو ایندھن پر مستقبل کے ٹیرف کا احاطہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ ایندھن اورترسیلیلاگت سے منسلک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ روسی یوکرین جنگ کی وجہ سے ایندھن کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور جس کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہوا ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز)کو پیسے دے رہے ہیں اور اس کے باوجود صارفین کو بجلی دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے ٹیرف میں اس غیر متوقع اضافے میں ملوث عوامل کی مکمل رپورٹ طلب کی۔مزید برآں سینیٹر ولید اقبال نے مقصود احمد سکنہ مریدکے، پنجاب کے متوفی شکایت کنندہ کا معاملہ اٹھایا، جسے 82 یونٹس کے استعمال پر 41000 روپے کا بجلی کا بل موصول ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ کے اہل خانہ نے دعوی کیا کہ بل وصول کرنے کے چند دن بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ تاہم لیسکو کے جواب میں شکایت کنندہ کا نام بشیر احمد بتایا گیا ہے۔ سی ای او لیسکو(لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی)نے کمیٹی کو بتایا کہ بشیر احمد شکایت کنندہ کا والد ہے اور موخر الذکر بجلی چوری میں ملوث تھا اور اس پر نیپرا قوانین کے مطابق جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
سینیٹر ولید اقبال نے جون میں واجب الادا مئی کے بلوں میں اضافے کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ اس کے جواب میں سی ای او لیسکو نے بتایا کہ بلوں میں یہ اضافہ کھپت سے متعلق ہے اور گرمی کے موسم کی وجہ سے مئی میں بجلی کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ چوری میں ملوث ہر فرد پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے چاہے اس کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو۔
انہوں نے لیسکو کے سی ای او کو ہدایت کی کہ وہ معاملے کی انکوائری کریں اور آئندہ اجلاس میں کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کریں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بھی گڈو تھرمل پلانٹ میں دھماکے کا معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے واقعہ کی وجوہات اور پاور پلانٹ کو دوبارہ فعال بنانے میں کتنی تاخیر کے بارے میں دریافت کیا۔
جینکو(سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ)کے حکام نے بتایا کہ چار ممبران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو آئندہ چند روز میں اپنی رپورٹ مکمل کرے گی۔ پلانٹ میں مینٹیننس کا کام پہلے سے ہی جاری تھا جسے 90 دن میں مکمل کرنا ہے اور اس واقعے کی وجہ سے مزید 20 یا 30 دن کی تاخیر ہوگی۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے ایوان میں اٹھائے گئے بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز کے معاملے پر تفصیلی بحث کی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ اکتوبر 2021 میں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا تھا اور مذکورہ عدالت نے 14 جنوری 2021 کو فیصلہ کیا تھا، جس میں عدالت نے نیپرا کو 30 دن میں معاملہ حل کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈیڑھ سال گزر چکا ہے اور معاملہ نیپرا کے سامنے زیر التواء ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے چیئرمین نیپرا کو ہدایت کی کہ وہ فریقین کے دلائل سنیں اور معاملے کو جلد حل کریں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کے پی کے میں بجلی کی عدم دستیابی کا معاملہ بھی اٹھاتے ہوئے کہاکہ کے پی کے میں 7000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس کی ڈیمانڈ 2800 سے 3000 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے لیکن بہت زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کے پی کے کے عوام کا بجلی کے بغیر جینا محال ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کل بجلی کی پیداور پر پہلا حق اس علاقے کاہے جہاں بجلی پیداہوتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین نیپرا کو ہدایت کی کہ صوبے کے پی کے کواس کا حق دیاجائے ۔چیئرمین کمیٹیسینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کیسکو(کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی)اور پیسکو(پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی)کی افرادی قوت کی عدم موجودگی کے حوالے سے شکایات بھی سنے۔
جو ان کی کارکردگی میں ایک حقیقی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے سفارش کی کہ وزارت بجلی کیسکو اور پیسکو اور دیگر ڈیسکوز( DESCO)کو ہدایت کرے کہ جن کے پاس مناسب عملہ نہیں ہے، وہ عملہ بھرتی کریں، کمیٹی نے 23 فروری 2022 کے بعد سے ہونے والی اپنی میٹنگوں میں کمیٹی کی زیر التوا سفارشات کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے وزارت سے استفسار کیا کہ کمیٹی کی سفارشات پر اب تک عمل کیوں نہیں ہوا۔ انہوں نے کیپکو کو دی گئی توسیع پر برہمی کا اظہار کیا، جس کا وقت نیپرا کی رضامندی کے بغیر 2021 کو ختم ہو گیا تھا۔ انہوں نے تمام DESCO’s میں گریجویٹ انجینئرز کے لیے نظر ثانی شدہ پروموشن پالیسی کا معاملہ بھی اٹھایا۔
ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیٹی کی سفارشات کے بعد سے بورڈ آف ڈائریکٹرز (بی او ڈی)کا اجلاس نہیں ہوا۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت بجلی کو ہدایت کی کہ 15دن کے اندراس حوالیسے کمیٹی کے سامنے تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے ۔ جامشورو کول پاور پراجیکٹ (Lot-I & Lot-II) پر سید جعفری سی ای او جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ پلانٹ 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور لاٹ-I اور II دونوں پر کل 1270 ملین امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔
جو ساہیوال اور پورٹ قاسم پاور پلانٹس سے کم ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے لاٹ II کے لیے 100 ملین امریکی ڈالر کا قرض منسوخ کر دیا ہے کیونکہ تاثیر کی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ آئی پی پیز نہیں چاہتے کہ پبلک پراجیکٹس مکمل ہوں اور اگر آئی پی پیز کے پاس فاضل پاور ہے تو ایمرجنسی میں انہوں نے پبلک پراجیکٹس کا سہارا کیوں لیا۔
اجلاس میں سینیٹر فدا محمد، سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی، سینیٹر ذیشان خانزادہ، سینیٹر شہزادہ احمد عمر احمد زئی، سینیٹر ثنا جمالی، سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان، سینیٹر بہرام خان تنگی، سینیٹر کامران مرتضی، سینیٹر ولید اقبال، سینیٹر مشتاق احمد نے شرکت کی۔