اسلام آباد(آئی این پی )پاکستان میں ڈیجیٹل لین دین 40فیصدپر پہنچ گیا،5لاکھ سے زائد موبائل بینکنگ ایجنٹ اور 7کروڑ سے زائد ایم والٹ اکاوئنٹس، مالیاتی ٹیکنالوجی فنٹیک کے فروغ کے لیے کوششیں جاری۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال ملک میں تقریبا 60 فیصد ای کامرس لین دین نقد اور بقیہ 40 فیصد ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے کی گئی۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ملک میں مالیاتی ٹیکنالوجی فنٹیک کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ملک میں 5لاکھ 34ہزار460موبائل بینکنگ ایجنٹس اور 74.6 ملین ایم والٹ اکاونٹس ہیں لیکن نقدخریدوفروخت اب بھی ملک میں اقتصادی سرگرمیوں پر حاوی ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک ادائیگی عام نہیں ہے۔ کچھ حکام مختلف فن ٹیک کاروباروں کے لیے ریگولیٹری فریم ورک رکھتے ہیں، جنہیں پاکستان باہمی تعاون کے ساتھ، تجزیہ اور ترامیم کے بعد مقامی مارکیٹ کے لیے اپنا سکتا ہے۔ موجودہ قانونی فریم ورک ریگولیٹری ہیلپ ڈیسک شرکا کے سوالات کو حل کرنے اور زیادہ قابل رسائی ہو کر ان کی مدد کرنے میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دبئی کی ایک فرم کے سینئر کمپلائنس کنسلٹنٹ اور مالک سمبل نوید قریشی نے کہا کہ بینک فنٹیک کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، نئی یا چھوٹی فنٹیک فرموں نے پہلے ہی بینکوں کو موقع فراہم کیا ہے جواپنی مرضی کے مطابق وابستگیوں اور تعاون کے ذریعے تکنیکی مہارت فراہم کر سکتا ہے۔ بینکوں کے لیے یہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ڈیجیٹائزیشن کا ہدف حاصل کرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک نئے ریگولیٹری فریم ورک کی تشکیل ہی واحد چیلنج نہیں تھا بلکہ اس پر نظرثانی اور ترمیم کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ ملک میں سب سے بڑا چیلنج کسی مخصوص ریگولیٹری فریم ورک کی عدم موجودگی میں کام کرنے کے لیے لائسنس حاصل کرنا ہے۔ پاکستان میں، ریگولیٹری سینڈ باکس کی جگہ متعارف کرائی گئی ہے جہاں فنٹیک کاروباری خیالات کو کنٹرول شدہ ماحول میں جانچ سکتا ہے۔
تاہم، اس سینڈ باکس اسکیم میں داخل ہونا آسان نہیں ہے کیونکہ صرف ایک محدود تعداد میں لوگوں کو اس تک رسائی حاصل ہے۔ ریگولیٹرز نے ممکنہ شرکا کی سہولت کے لیے ہیلپ ڈیسک متعارف کرائے ہیں، تاہم ریگولیٹر یا کنسلٹنٹس کے ذریعے متعلقہ معلومات براہ راست حاصل کرنا اب بھی ایک مشکل کام ہے۔سمبل قریشی نے کہاکہ ایک مضبوط ریگولیٹری فریم ورک پاکستان میں فن ٹیک کی ترقی کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھے گا۔
تاہم کاروبار اور ٹیکنالوجی میں مہارت فنٹیک فرموں اور نوجوان کاروباری افراد کے پاس ہے۔ ریگولیٹرز کا ایک بڑا کردار اور ذمہ داری انہیں نئے ریگولیٹری فریم ورک تیار کرتے وقت آپریشنل پہلووں، مالی استحکام، مارکیٹ کی سالمیت اور سرمایہ کاروں کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ سمبل قریشی نے کہا کہ قابل عمل اور کامیاب ریگولیٹری فریم ورک کو حاصل کرنے کا سب سے موثر طریقہ ریگولیٹر، فنٹیک تعاون کرنے والے فورمز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے فورمز تک رسائی صرف چند منتخب اداروں تک محدود نہیں ہونی چاہیے اور صنعت کے ان پٹ پر توجہ دی جانی چاہیے۔بین الاقوامی ریگولیٹرز کے ساتھ تعاون بھی اس سمت میں ایک بڑا قدم ہو گا۔