اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور اسمبلی توڑنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب آئین کی خلاف ورزی ہو تب عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کرسکتی ہے ،عدالت
خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی،عدالت وفاداریوں کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مسلم لیگ (ن )کے وکیل اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ مجھے ایک منٹ کیلئے سنا جائے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں۔
ایم کیو ایم، تحریک لبیک پاکستان فریق نہیں ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی بھی فریق نہیں ہیں، راہ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے تاہم وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں، ازخود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ازخود نوٹس لیا اور قوم کے ساتھ مہربانی کی۔بابر اعوان نے کہا کہ کیس یہ ہے اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے۔
آرٹیکل 5 کے حوالے سے کسی کو غدار کہا گیا، عدالت سے کہا گیا ہے کہ آئین کے 2 آرٹیکل کی تشریح کی جائے، سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسا دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر (ن )لیگ نے پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، مرکز، کے پی، پنجاب، آزاد کشمیر کی اکثریتی جماعت کو بغیر ریلیف چھوڑ دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی۔
یہ چاہتے ہیں عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمن پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں حوالہ نظر انداز کیا جائے، برطانیہ کی ایک ججمنٹ پیش کی گئی، بتاؤں گا اس کا یہاں کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں۔
میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نکتہ نظرانداز نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان اسلامی نظرئیے کی بنیاد پربنا، پاکستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکربیرونی سازش پرخاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟
ارکان اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔انہوں نے کہاکہ تمام شہریوں پر لازم ہے وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے۔
آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا اسپیکر کو اختیار ہے وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے، آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپکو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے پی ٹی آئی وکیل بابراعوان سے سوالات پوچھے کہ کیا اسپیکر نے جو کیا اس کا کوئی پس منظر تھا؟ کیا رولنگ کسی فائنڈنگ پر تھی؟ اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی؟ اس کے پاس کیا مواد تھا؟ ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب تک کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ اسپیکر نے جو کیا اس کا بیک گراؤنڈ ہے۔
آئینی شقیں تحریک عدم اعتماد پربہت واضح ہیں، کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے کے علاوہ کوئی اور بات کر سکے؟ کیا اسپیکر ایجنڈے سے ہٹ کر رولنگ دے سکتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ آپ اسپیکر کے ایکشن کا دفاع کر سکتے ہیں مگر آپ کی دلیل کی بنیاد بھی ہونی چاہیے، پارلیمنٹ کا اجلاس کب ہوا؟ پارلیمنٹ اجلاس کے منٹس کوئی دکھائیگا تو بات بنے گی۔
سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت حقائق اور ثبوت پر چلتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس میں الزامات لگائے گئے ہیں، آئینی بنیاد پر جانا چاہتے ہیں، اسپیکر نے کس بنیاد پر ایکشن لیا؟کیا اسپیکریہ ایکشن لے سکتا تھا؟ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اتنی کہانی بتانے کی ضرورت نہیں ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ راستہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیسے سب ہوا۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ راستے ہم خود نکال سکتے ہیں، ہمیں کہانیاں نا سنائیں، اسپیکر کی رولنگ میں صرف الزامات ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد آئینی عمل ہے، کیا اسپیکر آئینی عمل سبوتاژ کرنیکا اختیار رکھتا ہے؟ ۔وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان نے کہا کہ 7 مارچ کو خفیہ پیغام پاکستان آیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈی سائفر کا مطلب ہے ایک کوڈڈ چیز آئی اور اس کو ڈی کوڈکیا گیا؟
جس پر بابر اعوان نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ باتیں کرنا نہیں چاہتا۔بابر اعوان نے کہاکہ خفیہ پیغام پر بریفنگ دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خفیہ پیغام پرکابینہ کو بریفننگ دی یا دفترخارجہ میں اجلاس کو؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں خفیہ پیغام پر بریفنگ دی گئی۔پی ٹی آئی وکیل بابراعوان نے لیٹر گیٹ پر ان کیمرہ سماعت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ان کیمرہ ڈسکس ہو سکتا ہے؟
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے صرف واقعات کا تسلسل جاننا چاہ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں خلل ڈالنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی پرکسی سیاسی جماعت کے وکیل کو دلائل نہیں دینے چاہئیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی۔بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ خط میں بس یہ کہا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو ملک کے ساتھ یہ یہ یہ ہوگا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں۔
اسپیکرکے وکیل کو رولنگ پربات کرنی چاہیے۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو پھر ڈیش ڈیش ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر سب ٹھیک ہے، 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ سے پہلے پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔
معاملہ پارلیمنٹ میں لاکر تحریری نوٹس جاری کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہوا تھا؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا، پارلیمانی لیڈرز نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا، میٹنگ منٹس نعیم بخاری پیش کریں گے۔نجی ٹی وی کے مطابق بابراعوان نے کہا کہ میٹنگ میں کہا گیا ایک ملک نے پاکستان کے معاملے میں مداخلت کی۔
احتجاجی مراسلہ جاری کیا جائے، احتجاجی مراسلہ دو جگہ جاری ہوا، پاکستان میں اور خفیہ کوڈ والے ملک میں بھی، سینئر اینکر کیساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا فوج کا وہی مؤقف ہے جو کمیٹی نے کہا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ آئین کے تحت ہر شہری کی وطن سے وفاداری لازم ہے، کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟
تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں، اگر ایسا ہے تو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف کیا کیا؟بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے کسی کو غدارکہا نا ایکشن لیا، محتاط ہوکر اس معاملے پر دلائل دے رہا ہوں، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 ایکے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھجوایا ہے۔
رات کو میں نے اپنے مؤکل سے ہدایات لیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی خود مختاری پرکس کس نے حملہ کیا؟ تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے، میمو گیٹ کمیشن کی کارروائی ابھی تک زیر التوا ہے، جو حقائق متنازع ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں، کیا آپ کے مؤکل کو نہیں پتاکون کون شامل ہے اور اتنا بڑا اقدام کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت وفاداریوں کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف مفروضوں پربات کررہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہمیں پارلیمانی جمہوریت کا بتانا تھا، ہمیں اس معاملے کو ختم کرنا ہے، ہم جلد سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، ادھر ادھر کی باتیں نا کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں یہ بتا دیں آرٹیکل 69 اور 95 پر آپ کاکیا مؤقف ہے، آپ یہ بتا دیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے کیا اختیارات ہیں؟ بابر اعوان نے کہا کہ میمو گیٹ آج تک زیر التوا ہے، ایک شخص آج تک بھاگا ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سب معلوم ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ کے کلائنٹ وزیراعظم کمیشن بنانا چاہتے ہیں، مطلب انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم کو جو کچھ علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آسٹریلیا، برطانیہ اور بھارت کے آئین کی تشریح میں نہیں جانا چاہتے، ہمارا اپنا آئین ہے، اس کی شقیں الگ ہیں، ان کی تشریح کے لیے بیٹھے ہیں۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لیے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیاجائے، حقائق متنازع ہوں تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمیں متعلقہ حقائق بتائیں باقی آپ کے تحریری دلائل پڑھ لیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ قومی مفاد سب سے بے چارہ لفظ ہے جو پاکستان میں بہت استعمال ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ قومی مفاد کا لفظ اسپیکر کے حلف میں کہاں استعمال ہوا ہے؟سینئر وکیل نے کہا کہ وکیل ملکی سلامتی، دفاع سے وفاداری کا حلف میں ذکر ہیجو قومی مفاد ہی کہلاتا ہے، بابراعوان کے دلائل پرجسٹس اعجازالاحسن نے سر تھام لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں قراردادکو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟ یہ پہلا نکتہ ہے جو آپنے دلیل میں اٹھایا، آپ یہ کہہ رہے ہیں رولز خودکہتے ہیں ووٹنگ کے علاوہ بھی تحریک مسترد ہو سکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسپیکر تب تحریک مسترد کر سکتا ہے جب اس نے لیوگرانٹ نا کی ہو، ایک بار تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو جائے تو مسترد صرف ووٹنگ سے کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد زیر التوا ہو تو وہ سیشن پریزائڈ کرسکتاہے؟۔بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل94 کے تحت صدر، وزیراعظم کو نئی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جاسکتی؟یہ کہاں لکھا ہے کہ اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا ؟
جس ادارے کے اندر ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے وہ ملک کو قانون اور ضابطے دیتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ ہونا نتیجہ ہے، آپ کہتے ہیں سنگین سزاہونی چاہیے، اگر آپ کے ممبران منحرف ہو رہے ہیں تو سپریم کورٹ تو فیصلہ نہیں دے سکتی، سپریم کورٹ کو منحرف اراکین پر الیکشن کمیشن کی ڈکلیئریشن پرفیصلہ دیناہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سیاست میں صورت حال کا ازالہ کیا ہوتا ہے؟ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ سیاست میں صورت حال کا ازالہ عوام کے پاس جانا ہوتا ہے، ڈیڈلاک روکنے کیلئے آپ نے از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہوگا، ہم نے قائم مقام وزیراعظم کیلئے نام دے دیا ہے، اپوزیشن تاخیرکر رہی ہے،ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، ڈیڈلاک ہے, عدالت کافیصلہ اِدھر ہونا چاہیے یا اْدھر۔
درمیان میں نہیں ہونا چاہیے، اگر اِدھر ہوا تو وہ کھڑے ہوں گے، اْدھر آیا تو ہم کھڑے ہوں گے، آپ کوپتاہے کہ اس طرح اسٹاک مارکیٹ کریش کرتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ کیس جلدمکمل کریں تاکہ تاخیر نہ ہو، عدالت عوام کیلئے فیصلہ کریگی اور سب اس پر عملدر آمد کے پابند ہوں گے۔
بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد صدرعارف علوی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ڈپٹی اسپیکرکی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی، آرٹیکل 69 وہ فائر وال ہے جس میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے،عدالت آرٹیکل 69 کی فائروال پھلانگ کرپارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
تصادم ہوا تو نقصان پاکستان کے عوام کا ہوگا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہوگا، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ کیکام میں مداخلت ہے، اسپیکرکو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیر آئینی ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ کیا غیرآئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا، آرٹیکل 66 سے 68 پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے،بدقسمتی سیدرخواست گزاروں نے رولنگ چیلنج کی ہے، صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتا، اس تمام صورتحال کا حل نئے الیکشن ہی ہیں، اسپیکرکی رولنگ کاجائزہ لیا تو اسپیکر کا ہر فیصلہ عدالت میں آئیگا، رولنگ کو ریورس نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کے دو بنیادی استحقا ق ہیں۔
آزادی اظہار اور پارلیمنٹ اپنے بزنس کا خود ہی ماسٹر اور جج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ جب کوئی قانون بنادیتی ہے تو وہ عوام کے پاس ہوتا ہے، اس قانون کو عدالت آئین کی کسوٹی پر پرکھ سکتی ہے، پارلیمنٹ میں یہ کہناکہ 10 لوگوں کونکال رہیہیں یہ ووٹ نہیں دے سکتے، عدالت اس کارروائی کو نہیں دیکھ سکتی۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ سیاسمبلی توڑنے کی رکاوٹ دور ہوئی۔
آپ کہتے ہیں کہ اسپیکر نے غلط کیا تو اسے پارلیمانی انداز میں ہٹائیں؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کسی صورت واپس نہیں ہوسکتی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی توڑنیکی جو سمری بھجوائی آپ کہتے ہیں اسپیکر رولنگ سے وہ درست اقدام ہوا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو اسپیکرکی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیاوزیراعظم کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس رولنگ کے نتیجے میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جاسکتا، اسپیکر ایوان کے ماتحت ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اسپیکر رولنگ دے دے تو کیا ایوان واپس کرسکتا ہے؟ اگر اسپیکر ایوان کی بات ماننے سے انکار کردے تو پھر کیا ہوگا؟
اس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہاؤس اسپیکر کو اوور رول کرسکتا ہے،فیصلہ دیا گیا توپارلیمنٹ میں چھینک بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے لگے گی۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر وزیراعظم کو ہٹا دیاجائے تو تب بھی عدالت مداخلت نہیں کرسکتی؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے کسی بھی معاملے کو نہیں دیکھ سکتی۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کئی دن سے آرٹیکل 5 کا تذکرہ سن رہے ہیں، آرٹیکل5 کی شق 2 میں واضح ہے کہ ہر شہری آئین پر عملدرآمدکا پابند ہے، کیا اسپیکر اس ملک کا شہری نہیں؟ اسپیکر نے آئین کے آرٹیکل95 پر عمل نہ کرکے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں کی؟۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ روزانہ آئین کی خلاف ورزیوں کے واقعات ہوتے ہیں جس پر عدالت میں رٹ دائرہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ موجودہ کیس میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ واضح ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں تب مداخلت کرسکتی ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو، پارلیمنٹ کی کارروائی کوتحفظ حاصل ہے اور ہم اسے قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں، درخواست گزار کہتے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی پرپارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جاسکتاہے۔
عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ استحقاق کے ساتھ پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داریاں بھی ہیں، عدالت تقسیم اختیارات کے اصول کا احترام کرتی ہے، جب کچھ چیزیں ان حدود سے باہر نکل جائیں تو عدالت دیکھ سکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزیراعظم کو ایوان میں اکثریت نہ ہو تو علی ظفرصاحب آئین کیاکہتاہے؟
اسپیکرکا کردار پریزائیڈنگ افسر کا تھا، انہیں ووٹنگ کرا کے گنتی کرنی تھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ پوری پارلیمنٹ وزیراعظم کے خلاف اور اسپیکر وزیراعظم کے خلاف ہو تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفرنے جواب دیا کہ آئین میں کچھ سوالوں کے جوابات نہیں، اسے آئین میں خلا کہہ سکتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اسپیکرکی رولنگ کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کرسکتا ہے، عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی، عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ علی ظفر صاحب،آپ کے دلائل میں دلچسپ نکتہ ہے، آپ کہتے ہیں اسپیکررولنگ میں نقص بھی ہے توبھی اسے پارلیمانی تحفظ ہے، رولنگ کے بعد فوری عمل یہ ہوا کہ اسمبلی تحلیل ہوئی، آپ کہتے ہیں یہ بھی جمہوری عمل ہے۔
اگر کوئی بدنیتی تھی تو وہ یہ کہ پارٹی کو بچاؤں، اپوزیشن سوچ رہی تھی کہ وہ جیت جائے گی، اپوزیشن کو اگر غصہ بھی ہے توکیاعوام کے پاس جانے سے گھبرا رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قراردادجو کامیاب ہوسکتی تھی آخری لمحات میں ختم کردی گئی، اگر یہ اجازت دے دی گئی تو پھر کیا ہوگا، کیا پھر ہٹلرکے نازی جرمنی جیسا ہوگا جس کی کل صلاح الدین نے مثال دی؟
مثال دی گئی کہ ہٹلر نے اپنے مخالفین کو غدار قرار دیکر قانون منظور کرائے، تحریک پرووٹنگ ہونا تھی لیکن اسی اثناء میں وہ ہوا جس کی مثال نہیں ملتی، صلاح الدین نے ہمیں کل غلط مثال دی کیونکہ ہٹلرکی جماعت تو اقتدار میں رہی تھی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان کو اپنے مسائل خود حل کرنے دینے چاہئیں، اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو مسائل پارلیمان خود حل نہ کرسکے تو کیا ہوگا؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو مداخلت کے بجائے معاملہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے، این آراوکیس میں وزیراعظم کوسوئس حکام کوخط لکھنے کاحکم دیاگیا، خط نہ لکھنے پر اسپیکر کے پاس ریفرنس آیا جو انہوں نے خارج کردیا، عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کا کام فیصلے پر عمل کرنا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ وقت گزر رہاہے،(آج) جمعرات کو اس کیس کو صبح ساڑھے9 بجے سنیں گے۔
ن لیگ کے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے دروازے نہیں کھولے جا رہے،دل دکھ رہاہے صوبہ پنجاب 6 دن سے بغیر وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں کوئی حکم نہیں دیا، آرٹیکل 63 اے کا معاملہ بھی ابھی نہیں دیکھ رہے، پنجاب اسمبلی کی صورتحال میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے، پنجاب اسمبلی کامعاملہ چھوٹا نہیں کہ مختصرحکم نامے پاس کرنا شروع کردیں۔
انہوں نے کہاکہ پہلے قومی اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، قومی اسمبلی ممبران نے ہر طرح کے حالات کے باوجود انتہائی مؤدبانہ رویہ رکھا، کل فیصلہ کریں گے کہ پنجاب اسمبلی کامعاملہ سنیں یالاہورہائی کورٹ بھیجیں۔کیس کی سماعت کل جمعرات کی صبح ساڑھے9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔