اسلام آباد (مانیٹرنگ، این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد، استعفیٰ یا الیکشن کی آفر دی، اگر ہم عدم اعتماد جیت جاتے ہیں تو بڑا اچھا ہے قبل از وقت الیکشن کی طرف چلے جائیں گے،عوام سے کہوں گا مجھے بھاری اکثریت دو ملک کو ٹھیک کریں گے، اکثریت سے آکرسارا گند صاف کروں گا،اگست سے اندازہ ہوگیا تھایہ گیم چل رہی ہے،لندن سے منصوبہ بندی ہورہی تھی،
ایجنسیز کی رپورٹ تھی، کبھی فوج کیخلاف بات نہیں کروں گا،پاکستان کو مضبوط فوج کی ضرورت ہے، اگر مضبوط فوج نہ ہوتو دشمن ہمارے تین ٹکڑے کرسکتا ہے،یہ نوازشریف کی نااہلی ختم کریں گے اور ان کو بحال کریں گے،یہ میری بیوی کی کردارکشی کریں گے، اب یہ میری بیوی کے بارے میں غلط قسم کی باتیں کریں گے، میری بیوی کی دوست فرح کے خلاف بھی کردار کشی مہم چلائیں گے، اپوزیشن کی جانب سے کردار کشی کے حوالے سے کوئی آڈیو ٹیپ نکالی جاسکتی ہے،حکومت چلی جائے، جان چلی جائے، کبھی این آر او نہیں دوں گا،ہمیں تمام ممالک سے دوستی کرنی چاہیے،امن میں شرکت کریں گے، تنازعات میں نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہا کہ مجھے پیغام میں کہا گیا اگر عمران خان جیت گیا تو ملک کو بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر عمران ہار گیا تو پاکستان کو معاف کر دیں گے، مطلب اگلی حکومت آئی تو معاف کر دیں گے، اس کا مطلب ان کا ان سے رابطہ تھا، ان کے لوگ کیوں ان سے ملاقاتیں کررہے تھے؟ میرے پاس ساری رپورٹس ہے کونسا سیاست دان، کونسا صحافی سفارتخانوں میں جاتا تھا، مجھے ساری سازش کی مسلسل رپورٹ آرہی تھی، بیرون ملک میں کوئی تصور نہیں کر سکتا، کسی سفیروں سے کوئی سیاست دان ملے، یہ ان سے ملاقات ہی کیوں کرتے ہیں،
آفیشل میٹنگ میں اس طرح کی دھمکی کی کوئی مثال نہیں ہے، ابھی اپوزیشن نے عدم اعتماد نہیں کی تھی اس سے پانچ ماہ پہلے پلاننگ ہو رہی تھی، اس سے زیادہ ملک کے معاملات میں مداخلت کیا ہو گی،کھلی دھمکی دی گئی کہا گیا رجیم چینج نہیں کریں گے تو یہ کریں گے، کوئی سوچ سکتا ہے کوئی ہندوستان میں اس طرح کی دھمکی دے، ابھی بتارہا ہوں یہ سازشی میرے خلاف کردار کشی کریں گے، میری اہلیہ کے خلاف بے بنیاد مہم چلائی گئی، سب
کے سامنے کہہ رہا ہوں میری جان کو خطرہ ہے، یہ سارے ملے ہوئے ہیں، ان کوپتا ہے عمران خان چْپ کر کے نہیں بیٹھنے والا، تین ماہ پہلے ایک اینکرنے کہا ان پرپیسے چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے مجھے تین آپشنز دی تھیں، عدم اعتماد، استعفیٰ یا الیکشن کرالیں، ہم نے کہا استعفیٰ نہیں دونگا، الیکشن سب سے بہترین طریقہ ہے، چاہتا ہوں عدم اعتماد والے دن غداروں کی عوام شکلیں دیکھیں، عدم اعتماد ناکام ہوتا ہے تو الیکشن ہوں
گے، الیکشن میں دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ تین سال کام کیا، میں کہہ رہا تھا سردیوں کا وقت ہمارے لیے مشکل ہے، ملک کی اکانومی کو تسلسل چاہیے تھا، میں یہ کہہ رہا تھا کہ سردیوں تک مشکل وقت تک پالیسی کو برقرار رکھنا چاہیے، فوج کا اپنا ایک ویو تھا، میرے تو کبھی ذہن میں بھی ایسی بات نہیں آئی، پاکستان کوایک مضبوط فوج کی بہت ضرورت ہے، فوج نہ ہو تو ملک ٹوٹ جائے۔
عمران خان نے کہا کہ الیکشن بہترین طریقہ ہے استعفے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدم اعتماد پر تو کہوں گا میں تو مقابلے والا ہوں آخری گیند تک لڑونگا، چھانگا، مانگا کے دن چلے گئے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، کرسی دینے والا اللہ ہے، وہی واپس لینے والا ہے، مجھے کوئی فکر نہیں، میں تو اپنے گھر میں رہتا ہوں، سوائے سیکیورٹی کے اپنے تمام اخراجات خود کرتا ہوں، بدقسمتی سے انہوں نے اپنے کیسز کو مکمل نہیں ہونے دیا، کبھی کمر درد کا
بہانہ بنایا۔ واضح ہے سازش باہر سے ہے، قوم کو ضمیر بیچنے والوں کی شکلیں دکھانا چاہتا ہوں۔انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا کہ ووٹنگ والے دن اپنی اسٹرٹیجی مکمل کرلی ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کپتان ہمیشہ اپنی پلاننگ پوری کرتا ہے،اپوزیشن پرایسے کیسز بچ نہیں سکتے لیکن ڈیلے کر کے بچایا گیا، کیسز کو لمبا کھینچا گیا سارا پتا تھا لیکن ہم بے بس بیٹھے ہوئے تھے، عوام سے کہوں گا مجھے بھاری اکثریت دو ملک کو ٹھیک
کریں گے، اکثریت سے آکرسارا گند صاف کروں گا۔عمران خان نے کہاکہ پیسے ملنے کی وجہ سے ہم کبھی کسی بلاک، کبھی کسی بلاک میں چلے گئے، مولانا فضل الرحمان، نوازشریف کے بڑے بھٹو کو قتل کرانے میں ملوث تھے، اب بھی یہ وہی سازش کر رہے ہیں، بیرونی قوتوں کو اندر کے میر جعفر، میر صادق کی ضرورت ہوتی ہے، جن لوگوں کا کوئی ضمیر نہ ہو دنیا ذلیل کرتی ہے، ایڈمرل مولن نے کہا ڈرون حملے پاکستان کی حکومت کی
اجازت سے کرتے ہیں، امریکا کو پتا تھا ان کی اربوں کی جائیدادیں باہر ہے، ڈرون حملوں کے دوران امریکا کا ان پر ٹوٹل کنٹرول تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر میری پارٹی غیر مقبول نہ ہو تو کیا خیبرپختونخوا میں لوکل گورنمنٹ الیکشن جیتتے، پوری دنیا میں مہنگائی کا مسئلہ ہے، کہتے ہیں نااہل ہیں لیکن دنیا میری کورونا کی پالیسی کی تعریف کر رہی ہے، دنیا میں پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، شہبازشریف آ کر کیسے پٹرول کی قیمتیں کم کرے گا؟
لیگی صدر کے پاس پٹرول سستا کرنے کا کیا حل ہے، ہم نے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ زندگی کا تجربہ ہے، ہم نے آخری گیند تک لڑنا ہے، ضمیر بیچنے والے 20،20 کروڑ لینے والے بیرونی سازش کا حصہ بن رہے ہیں، شہبازشریف نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ میں نہیں آیا کیونکہ اس سازش کا حصہ ہے، ہمارے پاس شواہد ہیں، شہبازشریف آ کر کیوں نہیں چیک کرتے، بیرونی سازش کا حصہ بننے والے قوم کے غدار ہیں۔ پاکستان کی آزاد
فارن پالیسی کے لیے کھڑا ہوں، اگر میرا پیسہ باہر پڑا ہو تو کیا، آزاد فارن پالیسی کے لیے بول سکتا ہوں، اگرہم عدم اعتماد جیت جاتے ہیں توبڑا اچھا ہے قبل از وقت الیکشن کی طرف چلے جائیں۔عمران خان نے کہا کہ اگر مجھے ہٹا دیتے ہیں تو یہ سارے ملک کیسے چلائیں گے، شہباز شریف سے کسی قسم کی بات نہیں کر سکتا، لیگی صدر نے 16 ارب نوکروں کے اکاؤنٹ میں رکھا، قائد حزب اختلاف اتنے بے شرم ہیں، ملک کا وزیراعظم بننا چاہتا ہے،
ان سے بات کرنے کا مطلب بدی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، مغرب میں شہبازشریف کی طرح اگر کسی کے خلاف کیسز ہو تو باہرنہیں گھوم سکتے، اپنے آپ کو جمہوری کہنے والے ملک کے کریمنل ہیں،اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برصغیرکی ہسٹری ہے ہمیشہ باہر سے کنٹرول کیا گیا، اندر میر جعفر اور میر صادق ہوتے ہیں۔ ایران میں محمد مصدق آزاد خارجہ پالیسی لائے انہیں ’کو‘ کر کے ہٹایا گیا، بیرونی دنیا کو ذاتی مفادات کے
لیے ملکی پالیسی لانے والے غلام چاہئیں، سازش کا اگست سے گیم چلنے کا آئیڈیا ہوگیا تھا، لوگ یہاں سے لندن جاتے تھے پلاننگ کا پتا تھا، نوازشریف نے لندن میں حسین حقانی سے ملاقات کی، میٹنگ تین مارچ کو ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ حسین حقانی پاکستانی فوج کے بھی خلاف تھے، ہماری مضبوط فوج نہ ہو تو دشمن ہمارے ملک کے 3 ٹکڑے کر دے۔ مضبوط فوج نہ ہونے کی وجہ سے عراق، شام، لیبیا کو کمزورکیا گیا، پاکستان کو ایک
مضبوط فوج کی بہت ضرورت ہے، کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے مضبوط فوج کونقصان پہنچے، زرداری، نوازشریف نے سب سے زیادہ ملک کونقصان پہنچایا، اس کی بیٹی نے کھل کرفوج پرتنقید کی، اینٹی فوج لوگ کھل کر آرمی پر تنقید کرتے رہتے ہیں، میں کبھی فوج کے خلاف بات نہیں کرونگا، مشرف نے ان دونوں کو این آر او دیا۔عمران خان نے کہا کہ دس سالوں میں دونوں نے بڑی تباہی کی، مشرف نے این آر او ون دیا، ٹو مجھ
سے مانگنے کی پوری کوشش کی۔ میں نے پہلے دن کہا حکومت یا جان چلی جائے این آراو نہیں دوں گا، یہ ساری کمپین این آراوکے لیے ہے، باہر کی قوتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس طرح کے کرپٹ لوگ چاہئیں،خواجہ آصف کا بیان سن کرحیرت ہوئی، خواجہ آصف سے کہتا ہوں اگرغلامی کرنی تھی تو آزادی کی کیا ضرورت تھی، یہ اپنے ملک کوغلام بنانے کے لیے تیارہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ واضح کردوں سیاست میں فیکٹریاں، پیسہ بنانے
نہیں آیا، نظریہ پاکستان کے لیے سیاست میں آیا تھا، ان چوروں نے نظریہ پاکستان ہی بھلا دیا، چور خود اربوں پتی بن گئے، بیرونی طاقتوں کی پالیسی ان کو ناراض نہ کرنا ہے۔علامہ اقبالؒ نے خود دار ملک کا خواب دیکھا تھا،ایسا ملک بنائیں گے، ان ڈاکوؤں نے ہمیں ذلیل کیا، جنگ میں شرکت کرنے کے باوجود دنیا میں اوورسیز پاکستانیوں نے بڑی مشکلیں برداشت کیں، کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80ہزارلوگ مروادیئے، پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ایلیٹ کو ڈالرملنے سے فائدہ ہوا،
میری خارجہ پالیسی میں پاکستانیوں کی عزت پہلے ہو گی، ساڑھے تین سالوں میں اوورسیزپاکستانیوں سے پوچھ لیا جائے ان کی عزت کرائی یا نہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست، خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی بنیادی ستون ہیں جو مادر وطن کی خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں، ماضی میں بیرونی امداد کیلئے ہم نے خودداری، قومی سلامتی اور معاشی مفادات داؤ پر لگائے، بیرونی امداد کی وجہ سے اپنے عوام کے مفادات کا سودا نہیں کرنا چاہئے، اس بنا پر تشکیل دی جانے والی پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت عوام نے چکائی اور اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا، ہمارے ساڑھے تین سالہ دور میں خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔