تل ابیب(این این آئی)اسرائیل کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ میں مستقل جج کی نشست پر مسلمان خالد کابوب کو تعینات کردیا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل کے سپریم کورٹ کے حکام نے بتایا کہ مسلمان جج کو سپریم کورٹ میں مقرر کردیا گیا ہے جو یہودی اکثریتی ملک میں پہلا مسلمان جج ہیں۔اسرائیل کے 20 فیصد سے زائد شہری عرب ہیں
جہاں 2003 کے بعد عرب جج کو اعلی عدالت میں ذمہ داری دی گئی ہے جبکہ اس سے قبل تعینات ہونے والے تمام عرب جج عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 63 سالہ خالد کابوب مستقل جج بننے والے پہلے مسلمان ہیں جہاں عرب، عیسائی اور مسلمانوں کی جانب سے شکایت کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ منظم تفریق برتی جاتی ہے۔خالد کابوب اس سے قبل تل ابیب میں جج کے فرائض انجام دے رہے تھے اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے 4 ججوں میں شامل ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے ججوں، وزیروں، قانون سازوں اور وکلا پر مشتمل کمیٹی نے منتخب کیا۔اسرائیلی سپریم کورٹ میں مستقل جج تعینات ہونے والے خالد کابوب یافہ میں پیدا ہوئے، تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ اور اسلام پر تعلیم حاصل کی، قانون کی ڈگری بھی وہیں سے حاصل کی، پھر جج بننے سے قبل نجی پریکٹس کی۔اس سے قبل اسرائیلی سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے واحد مسلمان عبدالرحمن زوئبی تھے، جنہیں 1999 میں ایک سال
کے لیے عبوری طور پر تعینات کیا گیا تھا۔اسرائیل کی سپریم کورٹ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بدترین تنازعات سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں کی خلاف ورزیوں کے کیس پر سماعت ہوتی ہے۔عدالت میں فلسطینی خاندان کے ان 7 افراد کا کیس پر زیرسماعت جو نچلی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف دائر کیا گیا، جس میں فلسطینی
شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔متاثرہ فلسطینی خاندان کو مشرقی بیت المقدس سے منسلک شیخ جراہ کے کشیدگی کے علاقے میں قائم ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا۔اسرائیل نے 2017 میں شرعی عدالتی نظام کے تحت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان خاتون کو جج مقرر کردیا تھا۔شمالی قصبے تیمرا سے تعلق رکھنے والی ایک قانون دان حانا خطیب کو تین
مردوں کے ساتھ جسٹس کمیٹی میں منتخب کیا گیا تھا اور انہیں اسرائیل میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کے لیے عدالت کی قاضی (مذہبی امور)مقرر کیا گیا تھا۔اسرائیل میں عائلی قوانین طلاق، شادی اور نان نفقہ کے مسائل شرعی عدالتوں کے زمرے میں آتے ہیں اور مختلف طبقات کے لیے الگ نظام موجود ہے۔