پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر پر تنازع ہے،وزیر اعظم عمران خان

datetime 8  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر پر تنازع ہے،جلد یا بدیر بات چیت سے مسئلہ حل کرلیں گے،پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے خطے میں استحکام ہے،افغانستان میں انسانی المیہ رونما ہورہا ہے، ترجیح لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے،امریکا اور چین کو قریب لانے میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں،دنیا ایک اور سرد جنگ کی

متحمل نہیں ہوسکتی۔چینی ٹیلیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات ایسے منفرد ہیں جو ہر امتحان پر پورے اترے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات جس بھی مشکلات سے گزرے ہر امتحان میں سرخرو رہے، درحقیقت یہ تعلقات مضبوط تر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم جزو ہے، میرا خیال ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے، یہ مواصلات اور بجلی کی پیداوار سے شروع ہوا تھا اور اب ہم اسے اگلے مراحل یعنی انڈسٹرلائزیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر زرعی شعبے میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب زراعت بہت اہم ہے ہمیں فوڈ سیکیورٹی کی ضرورت ہے اس لیے زرعی پیداوار بہتر بنانے کے لیے ہم چین کے ساتھ اشتراک کرنا چاہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے خطے میں استحکام ہے، بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور کسی حد تک چین کا بھی مسئلہ ہے وہ بھارت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے تمام اختلافات سیاسی بات چیت سے حل کرنے چاہیے لیکن بدقسمتی سے بھارت میں ایک ایسی حکومت ہے جو انتہا پسند قوم پرست ہے74 سال قبل ہماری آزادی کے وقت سے کبھی بھارت میں اس طرح کی حکومت نہیں آئی۔انہوںنے کہا کہ بدقسمتی سے اس حکومت کے ساتھ ہمارے لیے آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہورہا ہے بالخصوص بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر پر تنازع ہے جو ہمارا واحدمسئلہ ہے جسے بھارت حل کرنے کے بجائے معاملات مشکل بنا دیے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ جلد یا بدیر ہم اسے بات چیت کے ذریعے حل کرلیں گے لیکن اس کے علاوہ پاک چین تعلقات خطے میں استحکام لائے ہیں۔افغانستان پر چین اور پاکستان کے اتفاق رائے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ افغان عوام کی بات ہے اور پاکستان اور چین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی قوم نے اتنے مسائل کا سامنا نہیں کیا جتنا افغان عوام نے کیا ہے۔انہوںنے کہاکہ 40 سال انہوں نے صرف جنگ دیکھی ہے اور پہلی مرتبہ امن کا موقع ہے کہ اس وقت افغانستان میں کوئی تنازع نہیں ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ وہاں انسانی المیہ رونما ہورہا ہے کیوں کہ افغانستان کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ جب بیرونی امداد بند ہوگئی تو پوری حکومت ایک تشویشناک بحران میں ہے وہ خدمات فراہم نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں ہے اور ان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی منجمد ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ چین، پاکستان اور بہت سے دیگر ممالک بشمول یورپی

ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طالبان حکومت کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کو ایک جانب رکھتے ہوئے ذہن میں صرف 4 کروڑ افغان عوام کو رکھا جائے جن میں سے نصف غذائی عدم تحفظ کی بدترین صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قحط، بھوک سے اموات، غذائی کمی کے امکانات ہیں، اس لیے ہمارا اتفاق ہے کہ ہر کسی کی اولین ترجیح افغانستان کے 4 کروڑ عوام ہونے چاہیے، جس میں نصف بہت برے حالات سے گزر رہے ہیں۔پاکستان اور چین کے معاشی تعلقات بالخصوص سی پیک کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ یہ منصوبہ انتہائی اہم ہے، چین کی جانب سے مواصلات اور بجلی کی پیداوار کے لیے چینی سرمایہ کاری ایک ایسے وقت میں آئی جو پاکستان کے لیے انتہائی نازک وقت تھا،

اس وقت ہمیں 2 طرح کے مسائل کا سامنا تھا ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ جس سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔انہوںنے کہاکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 80 ہزار جانوں اور کئی سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہماری کرنسی کی قدر آدھی رہ گئی۔انہوں نے کہا کہ اس سب سے بڑھ کر ہماری 2 انتہائی بدعنوان حکومتیں مالی بحران کا سبب بنیں، لہٰذا چین ہمارے سب سے مشکل وقت میں

سامنے آیا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارے لوگ چین سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کام آنے والے دوست کو آپ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اب سی پیک دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں ہماری صنعتی زونز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شامل ہے، پاکستان اپنے ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری کے لیے زبردست مراعات دے رہا ہے

۔انہوں نے کہا کہ اس علاوہ زراعت کا شعبہ ہے جس میں ہمیں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے تعاون اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہم نے چینی کمپنیوں کے ساتھ سمجھوتے کیے ہیں جو باہمی طور پر مفید ہوں گی اور چینی کمپنیوں کو ہمارے ہاں سرمایہ کاری سے بہت فائدہ ہوگا اور پاکستان ٹیکنالوجی کی منتقلی سے فائدہ اٹھائیگا۔پاک چین تعلقات مزید کن شعبوں میں بہتر ہوسکتے ہیں کہ جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ہمیشہ سے تعلقات زیادہ تر جیو اسٹریٹیجک رہے ہیں تاہم جب سے

ہماری حکومت آئی ہے ہم نے جیو اکنامک کو ترجیح دی ہے تا کہ لوگوں کو غربت سے نکالا جائے۔انہوں نے کا کہ ہماری 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ہمارا مقصد انہیں اس سے باہر نکالنا ہے جس کے لیے چین ہمارا رول ماڈل ہے کیوں کہ تاریخ میں کبھی کسی ملک نے اتنی بڑی تعداد کو اتنی کم مدت میں غربت سے نہیں نکالا کہ انہوں نے 35 سے 40سال میں 70 کروڑ

افراد کو غربت سے باہر نکالا اور حال ہی میں چینی صدر سے اعلان کیا کہ چین سے شدید غربت ختم ہوگئی ہے،ایسا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم چین سے سیکھنا چاہتے ہیں اور ہم نے اس پر اجلاس بھی کیے کہ ہم کس طرح دولت پیدا کریں اور اسے نچلی سطح کے لوگوں کو غربت سے نکالیں۔کورونا وبا سے ہونے والے اقتصادی نقصان کے تناظر میں پاک چین اشتراک کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ میں فخر سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں

نے بہت سے دیگر ممالک سے بہت بہتر انداز میں عالمی وبا کا مقابلہ کیا، ہم ان 3 بہترین ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے وبا کو بہتر انداز میں سنبھالا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے وبا سے اپنے لوگوں کو اور معیشت کو دونوں کو بچایا اور ہم نے چین سے بہت کچھ سیکھا، جب وبا شروع ہوئی تو ہماری چین سے قریبی تعاون تھا اور جب ویکسین تیار ہوگئی تو ہمیں چین سے انتہائی اہم وقت میں مدد ملی

۔پاک چین تعلقات کی وجہ سے امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی رپورٹس کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، دنیا کو ایسی صورتحال کی جانب نہیں بڑھنا چاہیے کہ دو کیمپس میں تقسیم ہوجائے، اس کا کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ہر کوئی مشکل اٹھائے گا۔ انہوںنے کہاکہ ممالک کے درمیان تعاون سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے،

میں نے یورپی یونین کو بنتے دیکھا اور دیکھا کہ تمام یورپی ممالک میں معیار زندگی بہتر ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ یہ کشیدگی ایک اور سرد جنگ کی شکل اختیار نہ کرلے جہاں ہمیں فیصلہ کرنا پڑے کہ ہمیں کس کا ساتھ دینا ہے، ہمارے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور چین کے ساتھ انتہائی مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے اگر آپ کے چین سے تعلقات ہیں تو دیگر ممالک سے ختم کرنے ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ

پاکستان 70 کی دہائی والا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جب پاکستان نے امریکا اور چین کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور ڈاکٹر ہنری کسنجر کے دورے کا اہتمام کیا تھا، ہم یہ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ میری ترجیح پاکستان کے 22 کروڑ عوام ہے اور صرف معاشی بہتری سے ہی لوگوں کو غربت سے نکالا جاسکتا ہے جو امن اور استحکام سے آتی ہے کیوں کہ تنازع سے سب سے پہلے معیشت متاثر ہوتی ہے اور یہ آخری چیز ہوگی جو ہم چاہیں گے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وہ دن دور نہیں


پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…