لاہور( این این آئی)پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کی کمزور معیشت کو سہارا دے رہا ہے کیونکہ کورونا وائرس کی عالمی وبا ء کے دوران جنوبی ایشیائی حریفوں پر برتری حاصل کرنے کے بعد برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔امریکی جریدے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے کہا کہ
ٹیکسٹائل کی برآمدات جون میں ختم ہونے والے 12 مالی مہینوں میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ 21 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کے لیے تیار ہیں۔عبدالرزاق دائود نے کہا کہ یہ حجم اگلے مالی سال میں 26 ارب امریکی ڈالر تک بڑھ جائے گی جو گزشتہ سال کی ملک کی کل برآمدات کو پیچھے چھوڑ دے گی۔بلومبرگ کے مطابق ٹیکسٹائل کی صنعت جو امریکہ اور یورپ میں خریداروں کے لیے ڈینم جینز سے لے کر تولیے تک سب کچھ فراہم کرتی ہے ملک کے چند روشن اقتصادی پہلوئوں میں سے ایک ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ٹیکسٹائلز ہیں اور 2020 میں جب عالمی وبا ء آئی تو ملک نے اپنی فیکٹریوں کو بھارت اور بنگلا دیش سے پہلے کھولنے کی اجازت دی جس سے اس نے ہدف کارپوریشن اور ہینس برانڈز انکارپوریشن سمیت عالمی برانڈز سے آرڈرز لیے ۔عبالرزاق دائود نے کہا کہ عالمی وبا ء کے دوران بہت سارے آرڈر درحقیقت بنگلا دیش اور بھارت سے
پاکستان منتقل کیے گئے تھے، دوسری اچھی چیز جو ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب ہم بنگلا دیش کے ساتھ مسابقتی بن رہے ہیں، تین چار سال پہلے بنگلا دیش واقعی ہمیں مات دے رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت افریقہ، جنوبی امریکہ اور وسطی ایشیا ء جیسی نئی منڈیوں میں برآمدات کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے اگلے ماہ ایک پروپوزل کا اعلان کرنے
کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔بلومبرگ کے مطابق ٹیکس میں چھوٹ، سستے قرضے اور جنوبی ایشیا ء میں حریفوں کے مقابلے میں بجلی کی فراہمی سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے حکومت ٹیکسٹائل برآمدات کو دوگنا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے 2018 سے امریکی ڈالر کے مقابلے مقامی کرنسی میں 60 فیصد کمی نے بھی مدد کی ہے۔جریدے
کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ وہ باقاعدہ تیزی سے بڑھنے والے معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے 1980 کی دہائی کے آخر سے لے کر اب تک 13 بار آئی ایم ایف سے مدد طلب کر چکی ہے۔عبد الرزاق دائود نے کہا کہ ملک کی ریکارڈ بلند درآمدات کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا
زیادہ حصہ بنیادی طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور ویکسینز کی خریداری ہیں۔ اگر تیل 100 امریکی ڈالر فی بیرل تک پہنچتا ہے تو پاکستان دبائو میں ہوگا۔امید ہے کہ بہتر گھریلو فصل کی کٹائی کے بعد اس سال خوراک سے متعلق درآمدات میں کمی آئے گی۔پاکستان مختلف معاہدوں پر دستخط کرکے اور ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے کر وسطی ایشیائی ممالک
کے ساتھ تجارت کو تیز کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے چھ ماہ میں تجارت بڑھ کر 120 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو پچھلے سال کے 14 ملین امریکی ڈالر تھی۔