پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

جسٹس فائز نظر ثانی کیس،سپریم کورٹ نے 9 ماہ 2 دن بعد سرینا عیسیٰ کی درخواستوں کاتہلکہ خیز تحریری فیصلہ جاری کردیا

datetime 29  جنوری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا اور انہیں اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔ ہفتہ کو عدالت عظمیٰ نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی

نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بینچ نے 26 اپریل 2021 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا جو چھ، چار کے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں دیا گیا تھا۔45 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں، دوسری طرف کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جج سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، عدلیہ کا احتساب ضروری ہے تاہم ہونا قانون کے مطابق چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر

جیسی ہے، ججز بڑے بڑے عہدوں پر موجود افراد کے خلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں، اس عدالت کے جج سمیت کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ

کرتے ہیں، اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدے یا پوزیشن کے ہر پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، جبکہ ائین کے تحت شفاف

ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کے معاملات کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم جوڈیشل

کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے، جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آسکتی تھی لیکن برطرفی

کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…