اسلام آباد(این این آئی) قومی سلامتی مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے معیشت کو پاکستان کا نمبر ون مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ یہ قومی سلامتی سے جڑا ہے ،جب کسی عالمی ادارے سے قرضہ لیتے ہیں تو قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ،قومی سلامتی پالیسی پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کی جاسکتی ہے،جب تک پالیسی پر عملدرآمد
نہیں ہوگا دستاویز رہے گی ،جموں و کشمیر نئی پالیسی کا اہم جزو ہے ،نکنگ کا نظام جب تک بحال نہیں ہو گا اس وقت تک افغانستان کی امداد ممکن نہیں ہے،افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ،بلاشبہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا نیٹ ورک موجود ہے،پاکستان کو طالبان کے حکومت میں آنے سے تمام مسائل کے حل پر مکمل پرامید نہیں ہونی چاہیے ۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اہم اجلاس احسان للّٰہ ٹوانہ کی زیر صدارت ہوا جس میں قومی سلامتی مشیر معید یوسف نے قومی سلامتی پالیسی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی میں جنگ ہتھیاروں سے ہٹ کر عام آدمی کا سوچا گیا ہے انہوں نے کہاکہ معیشت پاکستان کا نمبر ون مسئلہ ہے جو قومی سلامتی سے جڑا ہے،جب کسی عالمی ادارے سے قرضہ لیتے ہیں تو قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے،بیرونی قرضے ختم کرنا ضروری ہے ، ۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی کی توجہ جیو
اکنامکس پر ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جموں و کشمیر نئی پالیسی کا اہم جزو ہے ،گورننس کو ہم نے پالیسی کا حصہ نہیں بنایا۔انہوں نے کہاکہ یہ خطے کی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے ،2014 میں اس پالیسی پر کام شروع ہوا ،اس پالیسی کو حتمی شکل دینے میں سات سال لگے ۔ انہوں نے کہاکہ 2019میں اس پالیسی پر ڈرافٹنگ کمیٹی دوبارہ بنائی ۔ قومی سلامتی کے
مشیر نے کہاکہ سرتاج عزیر کی قیادت میں اس پالیسی پر کام کا آغاز ہوا،چھ دسمبر کو پارلیمنٹ کی مشترکہ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کی ،جب تک اس پالیسی کو پارلیمنٹ آن نہیں کرے گی اس وقت تک فعال نہیں ہوگی کیونکہ اس پالیسی کو قانونی کور حاصل نہیں ہوگا۔۔ انہوںنے کہاکہ جب تک عملدرآمد نہیں ہوگا دستاویز رہے گی ،اس پالیسی کا بنیادی نقطہ
عام آدمی کا تحفظ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ معاشی سیکیورٹی پر زیادہ فوکس ہے ،معاشی خود مختاری کو بہت اہم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جیو اکنامکس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہم جیو اسٹریٹیجک سے ہٹ گئے ۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم کو بھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہریت کو دوبارہ لازمی مضمون بنانے کے لئے سفارشات دی گئی ہیں،
منظم جرائم، ہائبرڈ وار کے موضوعات کو سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے،فوڈ سیکیورٹی ملک کے لئے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی کے خارجہ پالیسی حصے میں معاشی ترقی اور امن شامل ہے، قومی سلامتی پالیسی دستاویز میں کوئی خاص چیز نہیں چھپائی گئی،خ قومی سلامتی پالیسی دستاویز مختلف وزارتوں
کے لیے تجویز کردہ اقدامات شامل ہیں،ان اقدامات پر عمل درآمد کا لائحہ عمل شامل ہے۔انہوں نے کہاکہ تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور چیف سیکرٹریٹ سے ملاقات کرکے پالیسی عمل درآمد پر بات ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی میں ملک کے لیے ایک سمت متعین کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی کے حساس موضوعات پر
ان کیمرہ بریفنگ دی جا سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کی جاسکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ انہوںنے کہاکہ افغانستان کیلئے انسانی بنیادوں پر امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان امریکہ ترکی قطر ایران اور جاپان سمیت مختلف ممالک امداد دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے گندم اور ادویات پاکستان
کے راستے بجھوانے کا اعلان کیا تھا،ہم نے بھارت کو پاکستان کے راستے سپلائی کی اجازت بھی دے دی ہے ،اس کے باوجود بھارت نے ابھی تک گندم نہیں بھجوائی ۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں بینکنگ کا نظام جب تک بحال نہیں ہو گا اس وقت تک افغانستان کی امداد ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ نے افغانستان کے نو ارب ڈالر کے زرمبادلہ
کے ذخائر منجمند کر رکھے ہیں،افغانستان میں اجازت کے باوجود بینکوں پر بہت سخت شرائط ہیں۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ،بلاشبہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ دس بارہ سالوں میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں نے اپنا پورا نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو طالبان کے حکومت میں آنے سے تمام مسائل کے حل پر مکمل پرامید نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ مقامی سطح پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں ،بظاہر باڑ سے طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی سے ایک ماہ کی سیز فائر ہوئی جو انہوں نے یکطرفہ ختم کردی۔