اوسلو (آن لائن) اوسلو میں مذاکرات کے دوران یورپی ممالک نے طالبان کو امداد کی فراہمی خواتین کو تعلیم اور حقوق سے مشروط کردی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں کے مطابق افغانستان میں بر سر اقتدار آنے کے بعد طالبان کے وفد کے ناروے کے شہر اوسلو میں یورپی ممالک سے پہلے باضابطہ مذاکرات ہوئے ہیں۔بند کمرے میں ہونے والے ان مذاکرات کے بعد طالبان کا وفد کسی بھی قسم کا بیان جاری کئے
بغیر ہی کابل واپس چلا گیا ہے۔طالبان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور افغانستان کے غیر ملکی اثاثے بحال کئے جائیں۔افغان طالبان کے وفد سے مذاکرات میں شامل ناروے کی پناہ گزین کونسل (این آر سی) کے سیکریٹری جنرل جان ایجلینڈ کا کہنا تھا کہ پابندیوں کے خاتمے کے بغیر ہم افغانستان میں انسانی جانیں نہیں بچا سکتے۔ امداد بند ہونے سے ان ہی شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جن کے دفاع پر نیٹو ممالک نے کئی دہائیوں تک سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے۔طالبان حکومت میں وزیر خارجہ امیر خان متقی کی سربراہی میں وفد نے اوسلو میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے سینیئر افسر برٹرینڈ لوتھولیری، برطانیہ کے خصوصی ایلچی نگیل کیسے اور ناروے کی وزارت خارجہ کے افسران سے ملاقاتیں کی تھیں۔افغانستان کے لئے یورپی یونین کے خصوصی ایلچی ٹامس نکلسن اپنے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ مذاکرات کے دوران مارچ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکولوں تک لڑکوں اور لڑکیوں کی رسائی کو ممکن بنانے پر زور دیا گیا۔مذاکرات کے حوالے سے ناروے کے وزیر اعظم جونس گیہر اسٹور کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کی نوعیت انتہائی سنجیدہ اور حقیقی نوعیت کی تھی۔ ہم نے انہیں واضح کردیا ہے کہ ہم 12 سال سے بڑی لڑکیوں کو بھی اسکول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔طالبان کے وفد نے اوسلو میں ہونے والے ان مذاکرات کو اپنی بین الاقوامی شناخت کی جانب ایک قدم قرار دیا ہے۔