جنیوا (این این آئی) سوئٹزرلینڈ اور اس کے ہمسایہ ممالک فرانس، اٹلی اور جرمنی سے 6,000 سے زیادہ سکھ خالصان ریفرنڈم کے یورپی مرحلے کاآغاز کرنے کی غرض سے اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دن کے موقع پر شدید برف باری اور بارش کی پروا نہ کرتے ہوئے سوئس دارالحکومت جنیوا میں جمع ہوئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سکھوں نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کے لیے رات بھر بسوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں پہنچنا شروع کیاجس کا انعقاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے ہیڈ کوارٹر کے قریب ایک وسیع کمیونٹی ہال میںکیاگیا۔سوئٹزرلینڈ، فرانس اور اٹلی میں رات گئے شدید برفانی طوفان کے باعث سکھ خاندانوں کو لے جانے والی کئی درجن گاڑیاں ٹریفک جام اور روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے جمعہ کو جنیوا نہیں پہنچ سکیں۔ رکاوٹوں کے باوجود 6ہزار سے زیادہ سکھ مرد اور خواتین بی ایف ایم سینٹر میں جمع ہوئے اور بھارت سے پنجاب کی آزادی کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ دیا۔خالصتان ریفرنڈم کی منتظم تنظیم سکھز فار جسٹس (SFJ) نے کہا کہ جنیوا میں ووٹنگ کا دن10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پررکھاگیا تھا۔ خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ ایک آزاد پنجاب ریفرنڈم کمیشن کی نگرانی میں ہوئی۔ سکھز فار جسٹس کے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنن نے انسانی حقوق کے عالمی دن 2021 کی تھیم ’’مساوات‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سکھوں کواپنی بقاء کے خطرے کا سامنا ہے اوربھارتی حکمرانی میں ان کازندہ رہنے اور آزادی کا حق خطرے میں ہے۔ خالصتان ریفرنڈم کے یورپی مرحلے کے لیے جنیوا میں کیمپ لگانے والے گرپتونت سنگھ پنن نے کہاکہ پنجاب کی آزادی ہی واحد حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکھوں نے دنیا کو دکھایا ہے کہ بیلٹ بکس کے ذریعے بھارت کی جعلی خبروں اور سکھوں کے خلاف پروپیگنڈے کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کا مقصد یہ دکھاناہے کہ سکھ جمہوری طریقے سے اپنا حق استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔سکھز فارجسٹس کے یورپ اور برطانیہ کے
کوآرڈینیٹر پرمجیت سنگھ پما نے کہا کہ انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال بین الاقوامی برادری کو انسانی حقوق کے لئے اس کے عزم کی یاد دلاتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ سکھوں کے حقوق کو اس نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور اس لیے یہ ضروری تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی
جائے کہ ہندوتوا بھارتی حکومت نے کس طرح نہ صرف 1984 کے قتل عام میں بلکہ اس سے پہلے کئی دہائیوں تک سکھوں کامنظم طریقے سے قتل عام کیا ہے۔ووٹنگ ختم ہونے کے بعدسکھوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی عمارت کی طرف مارچ کیا جہاں خالصتان تحریک کے رہنماؤں نے تقریریں کیں۔ سکھ رہنماؤں نے اقوام
متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پوری دنیا میں سکھوں کے خلاف بھارتی حکومت کے اقدامات کا نوٹس لیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے کہاکہ بھارت ہمیشہ دنیا کے سامنے اپنا ایک مہذب چہرہ پیش کرتا ہے لیکن پردے کے پیچھے اس نے پورے ملک میں سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو قتل کیا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک
کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے سکھوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے برطانیہ، یورپ اور شمالی امریکہ میں سکھوں کے خلاف جارحانہ مہم چلائی۔ خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ اور جنیوا میں ریلی سے قبل سکھز فار جسٹس نے ایک خصوصی اجلاس میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر میں’’India’s
Criminalization of Khalistan Referendum‘‘کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی۔سکھز فار جسٹس کے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنن اور صدر کونسل آف خالصتان ڈاکٹر بخشیش سنگھ سندھو نے اقوام متحدہ کے حکام کو بین الاقوامی قانون کے تحت سکھوں کے حق خودارادیت اور خالصتان ریفرنڈم کے کارکنوںپر
نریندر مودی حکومت کی طرف سے تشدد اور ملک اور بیرون ملک بغاوت کے قوانین کے استعمال پر بریفنگ دی۔ سکھ وفد نے اقوام متحدہ کے حکام کو آگاہ کیا کہ مودی کی ہندو تواحکومت بھارت میں سکھوں پر بھارتی قوم پرستی کو مسلط کر کے ان کی ثقافت اور تاریخ کو مسخ کر رہی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے عہدیداروں کو بتایا کہ مودی
حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمزفیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب کو بھارتی قوم پرستی کو آگے بڑھانے اور خالصتان ریفرنڈم مہم کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے ۔ ریفرنڈم کی مہم 31 اکتوبر 2021 کو لندن میں شروع ہوئی اور برطانیہ کے پانچ مختلف شہروں میں ووٹنگ ہوئی جن میں سکھوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔