اسلام آباد(این این آئی)پبلک اکاونٹس کمیٹی میں انکشاف ہواہے کہ سابق وزیرمملکت برائے صنعت و پیداورالسلام الدین شیخ پاکستان سٹیل مل کے نادہندہ نکل آئے،کمیٹی رکن منزہ حسن نے کہاہے کہ بڑیلوگ ہیں مگر چھوٹی رقم نہیں دے رہے ہیں ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں خرچ کرلیتے ہیں مگر سرکاری پیسے واپس نہیں کررہے ہیں،کمیٹی نے کہاہے کہ ان کی رقم کم بنتی ہے ان کونوٹس دیں یہ اداکردیں گے۔
چیئرمین کمیٹی راناتنویرحسین نے کہاکہ،ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی میں جعلی ڈگریوں پر ملازمین کو بے روزگار نہ کیا جائے، آدھی اسمبلی جعلی ڈگریوں پر بیٹھی ہوئی ہے ڈی اے سی میں یہ مسئلہ حل کیاجائے، ریگولیٹری اتھارٹی کی مثال ایسی ہیں جیسے کتی چوروں کے ساتھ مل جاتی ہے،کس کام کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنائی گئی تھی وہ کام نہیں کررہی ہیں۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کااجلا س چیئرمین رانا تنویر حسین کی سراہی میں پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہوا۔ارکان کمیٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس آدھے گھنٹے تاخیر سے شرو ع ہوامگر تاخیرکے باوجود کمیٹی کاکورم نہیں تھا اجلا س میں سینیٹر مشاہد حسین سید،سینیٹر طلحہ محمود،علی نوازشاہ،حنا ربانی کھر،منزہ حسن،جبکہ ایازصادق نے ان لائن شرکت کی۔کمیٹی میں وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ پیروں کاجائزہ لیاگیا۔آڈٹ حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی (ای پی زیڈ اے) میں غیر قانونی بھرتی کی وجہ سے 139عشاریہ 860ن ملین کانقصان ہوا۔ایف آئی اے کی انکوائری میں 92ملازمین کی بھرتی غیر قانونی ثابت ہوگئی ہے جعلی ڈگریوں پر بھی لوگ بھرتی ہوئے۔منزہ حسن نے کہاکہ جن لوگوں نے بھرتی کیا ہے ان کے خلاف کوئی ایکشن ہواکہ نہیں؟ سیکرٹری نے کہاکہ اس میں بے ضابطگیوں پر ایف آئی اے نے ایکشن لیا۔گریڈ ایک سے چار تک بھرتیوں کو انہوں نے نہیں دیکھا
انہوں نے صرف افسران کی انکوائری کی۔چیرمین رانا تنویر نے کہاکہ قومی اسمبلی میں آدھے ارکان جعلی ڈگریوں والے ہیں آدھی اسمبلی جعلی ڈگریوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔کمیٹی نے کہاکہ ملازمین کو بے روزگار نہ کیا جائے ملازمین کو نکالنازیادتی ہے۔دو ہفتوں میں ڈی ایس سی کرکے مسئلہ حل کریں۔اسمبلی کی جعلی ڈگریوں پر منزہ حسن
نے اعتراض کیاجس پر مشاہد حسین سید نے کہاکہ آپ کی ڈگری اصلی ہے۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی نے کرائے کی ریکوری نہیں کئے جس کی وجہ سے 327422ڈالر کا نقصان ہواہے۔زمین کا کرایہ نہ لینے کی وجہ سے یہ نقصان ہواہے۔حکام نے بتایا کہ کیس عدالت میں ہے ریکوری کریں گے۔چیئرمین
نے کہاکہ حکومت کے جو کیس ہیں اس پر اچھے وکیل کریں اس کے لیے نظام بنارہے ہیں کہ بڑے وکیل کئے جائیں۔ کرایہ کے ساتھ سیکورٹی بھی لیں تاکہ دوبارہ ایسے مسائل نہ ہوں۔چیرمین کمیٹی نے افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ریگولیٹری اٹھارٹی جس کام کے لیے بنائی گئیں تھی وہ کام نہیں کررہی ہیں ۔ ہماری ریگولیٹری
اتھارٹی ایسی ہے جیسے کتی چوروں کے ساتھ مل جاتی ہے۔ریگولیٹری اتھارٹی کچھ بھی نہیں ہیں۔پی ٹی سی ایل کو پرائیویٹ کردیا ہے مگر سروس ٹھیک نہیں ہے کے الیکٹرک کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔گاڑیوں کی کمپنیوں نے پاکستان میں لوٹ ڈال دی ہے اب اون وہ لیتے ہیں افسران ان سے ملے ہوتے ہیں۔ اون سسٹم کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
منزہ حسن نے کہاکہ لاکھوں کی گاڑی خرید رہے ہیں مگر ان کا معیار ہی خراب ہے سیکورٹی فیچر پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ کمیٹی نے کہاکہ ہمارے ریگولیٹری اتھارٹی کام کیوں نہیں کررہی ہیں۔مناپلی کیوں ختم نہیں ہورہی ہیں۔انجینئر ڈوپلیمنٹ بورڈ کاکام کوالٹی کو دیکھنا ہے۔سیکرٹری نے کہاہے کہ آٹو پالیسی لے آئے ہیں اس میں سیکورٹی
فیچرز کو اہمیت حاصل ہے۔ ٹیسٹ لیب پاکستان میں نہیں ہیں۔کمپنی پیسے لینے کے بعد اگردو ماہ میں اگر گاڑی نہیں دیتی تو کمپنی کو اس پر جرامانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔بین الاقوامی سٹینڈرز ہوں گے۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ پاکستان سٹیل مل میں میسلینس چارجز نہ لینے کی وجہ سے 552عشاریہ 48ملین روپے کا نقصان ہوا۔کمیٹی نے کہاکہ کالونی کو
پانی اور بجلی کے بلک میں سپلائی کے بجائے ہر ایک کا الگ میٹر لگایا جائے۔منزہ حسن نے کہاکہ بڑیلوگ ہیں مگر چھوٹی رقم نہیں دے رہے ہیں۔السلام الدین شیخ سابق وزیر مملکت بھی نادہندہ ہیں ان سے رقم لی جائے انہوں نے پاکستان سٹیل مل کے 4لاکھ 85 ہزار روپے دینے ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ جو جو پیسے ریکور ہوسکتے ہیں وہ کرلیں۔