کراچی (آن لائن) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ موٹرسائیکل سوار کو ہیلمٹ کے ساتھ ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر دونوں سائیڈ شیشہ بھی لگانے ہوں گے تاکہ حادثات میں کمی ہوسکے۔ 15 اکتوبر سے محکمہ فوڈ گندم کی ریلیز شروع کردے گا اور اس سال فی 100 کلو گرام گندم کی قیمت 4875 روپے مقرر کی گئی ہے
، جس سے سبسیڈی کی مد میں سندھ حکومت 13 ارب روپے فراہم کرے گی۔ محمود آباد، گجر نالہ اور اورنگی نالہ کے متاثرین کو ریلیف دینے کے لئے زمین سندھ حکومت فراہم کررہی ہے اور ساتھ اس منصوبہ کے لئے ابتدائی طور پر1 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ سندھ اسمبلی کے علاوہ کوئی ایسا فورم نہیں ہے جو سندھ کے اخراجات کی منظوری دے سکے۔ سندھ بینک کے کیپٹل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 2 ارب روپے دئیے جارہے ہیں۔سب سے پہلے عمران نیازی کی آف شور کمپنیاں ہیں اور سب سے پہلے ہی انہوںنے ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ لیا ہے اور اب پنڈورا پیپرز پر اپنے بین الاقوامی جگادریوں کو شیلٹر دینے کے لئے خود ہی کمیشن بنا کر سربراہی کررہا ہے۔ اگر بنی گالہ کچھ رقم ادا کرکے قانونی ہوسکتا ہے تو نسلہ ٹاور سمیت دیگر تعمیرات کو قانونی شکل دی جاسکتی ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں قانونی تعمیرات پر اتنی قدغن ہیں کہ لوگ مجبوراً غیر قانونی تعمیرات میں اپنا روپیہ لگانے پر مجبور ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے منگل کے روز سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سندھ نے کہا کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں 4 محکموں اسکول و کالجز، کلچر اور محنت کے محکموں کے جاری ترقیاتی کاموں پر متعلقہ وزراء نے بریفنگ دی۔ انہوںنے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باعث ترقیاتی کاموں میں ان محکموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ معزز عدلیہ نے او پی ایس اور دوہرے چارج کے خاتمہ کا کہا ہے اور حقیقت اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارے پاس اتنے افسران موجود نہیں کہ وہ بغیر دہرے چارج اور او پی ایس کے محکمہ کے کاموں کو سرانجام دے سکیں۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے پاس گریڈ 20 کی نصف سے زائد اسامیاں خالی ہیں اور یہ اسامیاں پبلک سروس کمیشن کے تحت ہی پر کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے پاس ایکس ای این کی کمی ہے اور اوپر سے معزز عدلیہ نے حکم دیا ہے کہ ڈپلومہ والے انجنئیرز کو فیلڈ کا کام نہیں دیا جائے۔ اس تمام صورتحال کے باعث ہمارے محکموں میں جاری تقریاتی کاموں میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ کابینہ نے ایک اہم عوامی مسئلہ کو دیکھتے ہوئے موٹر وہیکل کے قانون میں ترمیم کی ہے اور اس کے تحت اب تمام موٹر سائیکل والوں کو ہیلمنٹ کے ساتھ ساتھ اپنی موٹر سائیکل کے دونوں سائیڈ کے شیشہ لگانے ہوں گے۔ انہوںنے کہا کہ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ نے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ موٹر سائیکلوں میں شیشہ نہ ہونے کے
باعث حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ سندھ کابینہ نے جیل کے قوانین 2013 سے قبل قیدیوں کو تعلیم حاصل کرنے پر رعایت ملنے اور بعد ازاں 2013 میں رعایت ختم ہونے کے بعد ایک قیدی کی جانب سے ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا کہ وہ اس قانون سے قبل تعلیم حاصل کرچکا تھا لیکن اسے رعایت نہیں دی گئی، جس پر معزز عدلیہ نے محکمہ جیل خانہ جات کو ہدایات جاری کی تھی اس سلسلے میں کابینہ اصولی طور پر اس کیس سمیت مزید 7 کیسوں کا جائزہ لے کر انہیں اصولی طور پر اس
رعایت کا مستحق قرار دیا ہے لیکن انہیں اس سلسلے میں محکمہ داخلہ اور محکمہ جیل خانہ جات سے کلئیرنس لینا ہوگی۔ سعید غنی نے کہا کہ کابینہ نے جاتی کے مقام پر شکار کے لئے قطر سے تعلق رکھنے والی ایک رائل فیملی کو قانون کے تحت شکار کی اجازت دے دی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں محمود آباد، گجر نالہ اور اورنگی نالہ کے متاثرین کی بحالی کے حوالے سے اٹارنی جنرل سندھ کی جانب سے عدلیہ میں بحریہ ٹائون کی رقم کی فراہمی پر انکار کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوںنے کہا کہ آئینی اور قانونی طور پر بحریہ ٹائون کی رقم سندھ کے عوام پر ہی خرچ ہونا ہے اور ان متاثرین کی بحالی پر اربوں روپے کے اخراجات ہونا ہیں اور یہ معزز عدلیہ کے حکم پر ہی ہونا ہے اس لئے اٹارنی جنرل سندھ نے معزز عدلیہ سے استدعا کی تھی کہ وہ رقم سندھ حکومت کو فراہم کی جائے تاکہ ان کی ہدایات پر ان متاثرین کو بحال کیا جاسکے،۔
انہوںنے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 118 کے تحت جو پیسہ صوبے کا ہے وہ اس صوبے کے فنڈ کا حصہ ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 120 کے تحت کسی بھی صوبے میں اخراجات کی منظوری کا اختیار صرف اور صرف اس صوبے کی اسمبلی کے پاس ہے۔ سندھ اسمبلی کے علاوہ کسی فورم کو یہ اختیار نہیں کہ وہ صوبے کے اخراجات کی منظوری دے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں معزز عدلیہ کی جانب سے ان پیسوں پر ریٹائرڈ یا حاضر جج کی سربراہی میں کمیٹی پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اخراجات کی
منظوری اسمبلی ہی دے سکتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ کابینہ نے ان متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے زمین کی فراہمی کے بعد ایک ارب روپے مختص کئے ہیں لیکن ان متاثرین کی بحالی کے لئے یہ فنڈز نا کافی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ سندھ کابینہ نے محکمہ فوڈ کو 15 اکتوبر سے گندم ریلیز کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اس سال فی 100 کلو گرام گندم کی قیمت 4875 روپے مختص کی گئی ہے، جو تمام صوبوں کے مساوی ہے اور اس پر سندھ حکومت 12.98 ارب روپے کی سبسیڈی دے گی۔
انہوںنے کہا کہ نیب نے کچھ کیسز میں گندم کو سیل کیا تھا اور کہا تھا کہ گوداموں سے 94290 میٹرک ٹن گندم غائب ہے، جبکہ بعد ازاں دوسرے گوداموں میں رکھی گئی 33917 میٹرک ٹن گندم افسران نے بتائی ہے۔ انہوںنے کہا کہ سندھ نے 12 لاکھ میٹرک ٹن گندم پروکیومنٹ کی تھی اور یہ 15 اکتوبر سے ریلیز ہونا شروع ہوگی تو آئندہ نئی فصل کے آنے تک صوبے کے لئے کافی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر صاحب نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ کی جانب سے گندم کی ریلیز نہ ہونے سے ملک میں گندم کا
بحران پیدا ہوا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پورے ملک میں سالانہ گندم کی کھپت 2 کروڑ 80 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ صرف پنجاب 1 کروڑ 95 لاکھ ٹن گندم پیدا کرتا ہے جبکہ دیگر صوبوں کی مل کر ٹوٹل کھپت کے مقابلے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا ملک کو ہوسکتا ہے اور یہ بھی خسارہ پچھلے سال کی موجود گندم سے پورا ہوسکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ خود عمران نیازی کے اے ٹی ایم نے 46 لاکھ میٹرک ٹن گندم کہاں گئی کا کہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان بین الاقوامی جگادریوں اور اے ٹی ایم نے
نہ صرف سستے داموں گندم امپورٹ کی بلکہ چینی کے ساتھ بھی یہی کیا اور بعد ازاں مہنگے داموں گندم اور چینی ایکسپورٹ کرکے اس ملک کے عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول 140 ڈالر فی بیرل تھا اور اب 70 ڈالر ہے لیکن پیپلز پارٹی کے دور میں کبھی پیڑول کے دام اتنے نہیں بڑھے تھے۔ ان بین الاقوامی جگادریوں کے لئے ایک رات میں پیٹرول پر 25 روپے فی لیٹر کا اضافہ اوگرا کی منظوری کے بغیر بھی اس نیازی
اور ان کے اے ٹی ایم نے کرکے عوام کے جیبوں پر راتوں رات اربوں کا ڈاکہ ڈالا۔ ایل این جی ہو، پیٹرول ہو، دوائیاں ہوں یا پھر گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو یہ سب اس بالائق اور نااہل وزیر اعظم نے اپنے اے ٹی ایم کو جنہوں نے ان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے انویسٹ کیا ہے ان کو نوازنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اسی نالائق وزیر اعظم نے چینی اور گندم پر کمیشن خود بنائے اور ان کی رپورٹ میں ثابت ہوا کہ کون کون ملوث ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی اگر یہ کارروائی ہوتی تو سب سے پہلے خود عمران نیازی، وزیر خزانہ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کے لوگ جیلوں میں ہوتے۔
انہوںنے کہا کہ اب پنڈورا پیپرز بھی خود اس نالائق وزیر اعظم نے کمیشن بنا کر ان جگادریوں کو شیلٹر دینے کے لئے اعلان کردیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ جس طرح پنامہ لنکس میں عمران خان کا موقف تھا وہ اسی موقف پر رہیں اور پہلے ان تمام اپنی کابینہ کے وزراء اور پارلیمنٹ کے ارکان کا استفعیٰ لیں تاکہ حقیقت سامنے آجائے۔ ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ نالہ متاثرین کو ماہانہ 15 ہزار روپے کرایہ کی مد میں دو سال تک دینے کا فیصلہ سندھ کابینہ نے نہیں بلکہ این ڈی ایم اے اور پی سی آئی سی کے تحت بننے والی دو کمیٹیوں نے کیا تھا اور یہ وفاق کی تجویز تھی کہ ان کو وزیر اعظم کی نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں گھر دئیے جائیں گے لیکن یہ بھی 3 لاکھ کی سبسیڈٖی اور باقی مانندہ ہائوس بلڈنگ کے لان کی مدد سے دینا تھی۔ لیکن اس نالائق وزیر اعظم کی 50 لاکھ گھروں کی اسکیم بھی ابھی اسکیم ہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں
سعید غنی نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات پر ضرور سختی ہونے چاہیے لیکن ساتھ ساتھ قانونی تعمیرات میں نرمی اور سہولیات دینا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سب کو اپنا سر ڈھانپنے کے لئے گھر کی ضرورت ہے اور اگر قانونی طور پر تعمیرات میں مشکلات ہوں گی تو لازمی لوگ غیر قانونی تعمیرات کی جانب جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ جب عمران نیازی کا بنی گالہ کا معاملہ پیسہ ادا کرکے قانونی ہوسکتا ہے تو نسلہ ٹاور ہو یا دیگر جو تعمیرات مکمل ہوگئی ہیں ان کو
بھی یہ رعایت ملنا چاہیے۔ ایک اور سوال پر انہوںنے کہا کہ عمران خان 20 سالہ پہلے آف شور کمپنیوں کا مالک ہے اور ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے، خود ان کی بہن نے ایف بی آر کو جرمانہ ادا کرکے اپنی بلیک منی کو وائٹ کروایا ہے اور آج یہ سارے ان کے جگادری اس کی چھتر چھایہ میں ہیں۔ ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ نالہ متاثرین کے لئے اگر معزز عدلیہ بحریہ ٹائون کی رقم فراہم
نہیں کرتی اور اس کے باوجود بھی ہم پر زور دیتی ہے کہ ان کی آبادگاری کریں تو مجبوراً ہمیں اپنے ترقیاتی فنڈز سے کٹوتی کرنا ہوگی اور اس سے عوام کا ہی نقصان ہوگا اور ہم تعلیم، صحت سمیت دیگر شعبوں میں ترقیاتی کاموں کے فنڈز کی کٹوتی پر مجبور ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس پہلے ہی موجودہ نااہل وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث صوبے کو ملنے والوں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور ہمارے پاس فناسل ایشیوز ہیں۔