لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک )لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دفتر کی جانب سے حال ہی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کے لیے ایک 75 انچ کے ٹی وی کی خریداری کا اشتہار سامنے آیا۔ اشتہار میں ٹی وی کی خریداری کے لیے ٹینڈر طلب کیے گئے ہیں۔بی بی سی اردو کے مطابق اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ اس ٹینڈر کے لیے بولی دینے والی کمپنیوں کے
لیے ضروری ہو گا کہ وہ 75 انچ ٹی وی کی کل قیمت کا تین فیصد سکیورٹی کے طور پر جمع کروائیں گے۔ تین فیصد سکیورٹی کی مد میں جمع کروائے جانے والی رقم 17550 روپے بتائی گئی ہے۔اس حساب سے لاہور کے علاقے جی او آر 1 میں واقع چیف جسٹس ہاس کے لیے درکار پچھتر انچ ٹی وی کی کل قیمت کا تخمینہ پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ بنتا ہے۔اشتہار سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا سرکاری افسران کے لیے اس نوعیت کی تفریح کی اشیا کی خریداری عوام کے ٹیکس کے پیسے سے کی جانی چاہیے یا نہیں؟اس اشتہار کے بعد سوشل میڈیا پر ہی ایک خط بھی پوسٹ کیا گیا ہے۔ خط کے مندرجات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ خط لاہور کے علاقے عسکری الیون کے ایک رہائشی قیس محمد حسین نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام تحریر کیا ہے۔ خط میں انھوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی خزانے سے اس ٹی وی کی قیمت ادا نہ کریں۔انھوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا غریب ملک اور اس کے ٹیکس ادا کرنے والے عوام اس خرچ کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔انھوں نے اپنے اندازے کے مطابق یہ بھی بتایا کہ ایک جیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ دس لاکھ روپے سے زیادہ ہوتی ہے اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر ججوں کی تنخواہوں کے حوالے سے جاری کردہ دستیاب معلومات کے مطابق یہ دعویٰ درست ہے۔سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہ سوال بھی پوچھا جاتا رہا ہے کہ خاص طور پر وہ سرکاری افسران جن کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی مد میں ملنے والی رقم لاکھوں روپے میں ہے انھیں ایسی ذاتی نوعیت کی اشیا اپنی جیب سے کیوں نہیں خریدنی چاہئیں؟