اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) دعا کی قبولیت کیلئے متعدد اوقات اور جگہیں ہیں، جن میں سے ہم کچھ یہاں بیان کرتے ہیں مصیبت آنے سے پہلے ہمیں کیا کرنا چاہیے عبداللہ بن عبید فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ سے عر ض کیا ۔کہ میں کیا پڑھا کروں اپنی حفاظت کے لیے مصیبتوں کو ٹالنے کے لیے پریشانیوں سے بچنے کے لیےمیں کیا پڑھوںنبی اکرم ۖ نے
ان کو حل بتا رہے ہیں کیا پڑھنا ہے تم نے اپنی مصیبت پریشانی اور غم کو دور کرنے کے لیے اور اتنی چھوٹی چھوٹی دعائیں ہیں ہم یہ نہیں کرتے اگر ہم کسی بیماری میں جائیں تو ہم ڈاکٹر کے کہنے پے بہت ساری میڈیسن کھاتے ہیں دل بھی نہیں ہے کرتا میڈیسن کھانے کو لیکن ہم کھاتے ہیں کیوں کے بیماری کو کنڑول کرنا ہے ۔لیکن اگر ہم وہی کریں مصیبت غم نہ آئے کسی آفت کو دور کرنا ہے تو کنڑول کے لیے ازکار ہے نہ پیسہ جاتا ہے لیکن وہ ہم سے نہیں ہے ہوتا۔عبداللہ بن عبید نےکہا اللہ کے رسول اپنی حفاظت کے لیے میں صبح اور شام کے معاملے میں کیا پڑھوں تو نبی اکرم ۖ فرماتے ہیں ہر صبح اور شام تین تین مرتبہ تم سورة اخلاص پڑھو پھر تین مرتبہ سورة فلک پڑھیں پھر فرمایا تین مرتبہ سورة الناس پڑھومطلب تینوں سورة ایک ساتھ پڑھیں ہر وقت پریشانی والی چیز سے اللہ پاک محفوظ رکھے گا صحابی فرما رہے ہیں کہ اللہ کے رسول ۖ نے فرما اگر کوئی پریشانی مصیبت آجائے تو صبح شام تین تین مرتبہ سورة اخلاص سورة فلک اور
سورة الناس کو تین تین بار پڑھا کرویہ تمہارے لیے کافی ہو جائے گا مصیبتوں کے لیے پریشانیوں کے لیے ۔ہم جیسا عام آدمی بڑا کم ظر ف ہوتا ہے اگر کسی مصیبت میں پھنس جائے تو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا ہے اور اگر اسے عیش و طرب کے لمحات میسر آجائیں تو وہ رب کائنات کو بھول کر اپنی خواہشات میں محو ہوجاتا ہے۔
حالانکہ ہر آدمی کو اس حقیقت کا یقین ہونا چاہیے کہ مصیبتوں کو دور کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہےاو رمسرت کے لمحات عطا فرمانے والا اور انہیں تا دیر برقرار رکھنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ یعنی انسان کو ہر حال میں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ میں رب کریم کا محتاج ہوں اور ایک لمحے کے لیے بھی ا س سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔” جب آدم علیہ السلام
نے لغزش کا ارتکاب کیا تو عرض کرنے لگے: اے میرے رب میں تجھ سے حضرت محمد ﷺ کے طفیل درخواست کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم آپ نے محمد ﷺ کو کیسے پہچانا؟ جبکہ میں نے ابھی انہیں صورت بشری میں پیدا بھی نہیں کیا۔ کہنے لگے: اے میرے رب ! اس لیے کہ جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا
اور میرے اندر اپنی پیدا کی ہوئی روح پھونکی تو میں نے سر اوپر اٹھایا، کیا دیکھتا ہوں کہ عر ش کے ایک پائے پر لکھا ہوا ہے “لا اِلہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ” تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا کر اسی ہستی کا نام لکھا ہے ، جو تجھے سب مخلوق سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدم ! تم نے سچ کہا ، بے شک وہ مجھے تمام مخلوق سے
زیادہ محبوب ہیں اور جب تم نے مجھ سے ان کے وسیلے سے سوال کیا تو میں نے تمہیں بخش دیا اور اگر محمدمصطفیٰ ﷺ نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے “دلائل النبوۃ ” میں بحوالہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔ امام طبرانی نے بھی اس حدیث کو “معجم اوسط” میں اور حاکم نے “مستدرک ” میں روایت کیا ہے۔