اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے کم از کم تین ججوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں ایک بھی رہائشی پلاٹ نہیں ملا۔ جس پالیسی پر اعلیٰ عدالت کے ججوں نے سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اس کے مطابق سپریم کورٹ کا جج پرویز
مشرف دور میں بنائی گئی پالیسی کے تحت اسلا م آباد میں دو رہائشی پلاٹس حاصل کرنے کا حقدار ہے جبکہ ہائی کورٹ کے جج کیلئے ایک پلاٹ ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق پلاٹ کی یہ الاٹمنٹ ان شرائط و ضوابط میں شامل نہیں جو صدارتی آرڈر میں شامل ہیں جن کے تحت آئین میں ججوں کیلئے تنخواہ، پنشن اور سہولتوں وغیرہ کی بات شامل ہے۔ ججوں، جرنیلوں، سیکریٹریوں، صحافیوں، میڈیا مالکان وغیرہ کو پلاٹ دینے کا معاملہ ماضی سے متنازع رہا ہے اور اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کی وجہ سے دوبارہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سرکاری زمینیں معاشرے کے با اثر افراد کو الاٹ کرنے کی منظوری پارلیمنٹ نے کبھی نہیں دی بلکہ یہ کام ایگزیکٹو کی اُن پالیسیوں کے تحت کیا جاتا ہے جو دبائو میں بنائی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں ججوں اور بیوروکریٹس کو دیے گئے پلاٹس کی الاٹمنٹ منسوخ کرتے ہوئے معاملہ یہ کہہ کر حکومت کو بھیج دیا کہ پالیسی پر غور کیا جائے۔
وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے اتفاق کیا اور پالیسی پر نظرثانی کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ فائونڈیشن (ایف جی ای ایچ ایف) نے حال ہی میں قرعہ اندازی کے ذریعے ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں، سپریم کورٹ کے ججوں اور بیوروکریٹس کو پلاٹس الاٹ کیے تھے۔ ایک کیس میں سپریم کورٹ کے جج، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاہدہ
پیش کیا تھا کہ آئین کے تحت اور نہ ہی قانون کے تحت کوئی جج یا مسلح افواج کا کوئی سینئر عہدیدار پلاٹ یا زمین کا ٹکڑا لینے کا حقدار ہے۔ سی ڈی اے کے امور کے حوالے سے سنائے گئے فیصلے میں جسٹس عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ماہانہ ملنے والی بھاری پنشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پنشن کی یہ سالانہ ادائیگی حکومت
کے اخراجات چلانے کے مساوی ہے جو 476؍ ارب 58؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے بنتی ہے۔ یہ پنشن پاکستان کے عوام ادا کرتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی جیب میں بہت کم رقم بچتی ہے۔ قوم کی خدمت اپنے طور پر ہی واحد اور بہت بڑا اعزاز ہے۔ اگر پنشن کے ساتھ یہ سرکاری زمینیں (جو ججوں کو الاٹ کی جاتی ہیں) بھی لی جائیں تو یہ سراسر نا انصافی ہے۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ نے بھی حکومت سے کوئی پلاٹ لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ان کے ساتھ ججوں کو دو دو پلاٹ ملے۔ 2017ء میں سابق چیف جسٹس پاکستان نے بتایا تھا کہ معاشرے کے مخصوص طبقے، جو پہلے ہی اثر رسوخ سے لطف اندوز ہو رہا ہے، کو رہائشی پلاٹس الاٹ کرنا غیر منصفانہ عمل ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کے
ججوں کے معاملے میں یہ ضابطہ اخلاق کے مطابق نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ایسی پالیسی نہیں بنا سکتی جس میں سرکاری وسائل معاشرے کے مخصوص اور با اثر افراد میں تقسیم کیے جائیں، میرے خیال میں ججوں کو ایک بھی پلاٹ دینا ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، ججز صرف وہی لینے کے حقدار ہیں جو صدارتی آرڈر میں
لکھا ہے (پنشن تنخواہ اور سہولتیں) ۔ جسٹس (ر) خواجہ نے کہا کہ ججز اُس حکومت سے پلاٹ کیسے لے سکتے ہیں جس کے کیسز تقریباً روزانہ ہی عدالتوں میں سماعت کیلئے پیش ہوتے ہیں، یہ تو ججوں پر احسان کرنا ہوگیا۔ انہوں نے ججوں کے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل ہشتم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی رائے میں کسی بھی جج کی جانب سے کوئی احسان (فیور) قبول کرنا اس
آرٹیکل کی ہی نہیں بلکہ ججوں کے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تحائف صرف قریبی عزیز و اقارب یا اور دوستوں سے وصول کیے جاتے ہیں اور وہ بھی روایتاً۔ عہدے کی مناسبت سے ملنے والی کسی بھی Favour کو مسترد کر دینا چاہئے۔ لطف اندوزی کی کوئی بھی چیز (چاہے وہ عمومی ہو یا خصوصی) قبول کرنے سے قبل احتیاط سے کام لینا چاہئے کہ کہیں اس تحفے کا اصل مقصد کہیں ججوں کے فرائض کی ادائیگی سے متصادم تو نہیں، تاکہ کیسز لڑنے والے فریقین کی طرف کسی بھی طرح کی ممکنہ جانبداریت سے بچا جا سکے۔