کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ٹی وی کے مطابق صد ربائیڈن کی افغان انخلا میں جلدی بازی نے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ کردیا ۔جو بائیڈن نے افغان طالبان کو قابو رکھنے کی امیدیں پاکستان لگا رکھی تھیں ۔اسلام آباد نے طویل عرصے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات اور طالبان کی حمایت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے واشنگٹن میں مایوسی ہوئی ہے اور
اب وہاں یہ احساس ہے کہ طالبان کی جیت میں پاکستان میں حمایت کا بہت زیادہ تعلق ہے۔روزنامہ جنگ میں رفیق مانگٹ کی شائع خبر کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ امریکیوں کے خیال میں 20 سالوں میں امریکہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ طالبان کی پاکستانی حمایت تھی ۔پاکستان خطے کی ناگزیر قوت ہے۔امریکہ چین کے اثر و رسوخ کو کنٹرول میں رکھنے اور اسلام آباد کے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ملک میں قدم جمانا چاہتا ہے۔ 31 اگست کو امریکی فوجیوں کے انخلا کے خاتمے کے بعد یہ اور بھی اہم ہو جائے گا۔ امریکہ اور پاکستان 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کبھی قریب نہیں ہوئے۔اسامہ واقعے نے تعلقات مزید کشیدہ کردیے۔امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ بن لادن کی موجودگی کم از کم پاکستانی حکام میں کچھ لوگوں کومعلوم تھی،لیکن اس سے پیدا ہونے والی تلخی اور بدگمانی اب بھی دونوں طرف موجود ہے۔ اپنی صدارت کے نصف سال سے زائد عرصے تک، بائیڈن نے ابھی تک پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو فون نہیں کیا۔
پاکستانی عہدیدار برسوں سے شکایت کرتے آرہے ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان سے سیاسی تصفیے تک پہنچنے میں مدد کرے اور ساتھ ہی اس پر کریک ڈاؤن بھی کرے۔ کشیدگی کے باوجود دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ افغانستان میں ہماری انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیت پہلے جیسی نہیں ۔
دیگر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان اس خلا کو پر کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ امریکہ چین کی وجہ سے اسلام آباد کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو اپنے آپشنز کھلے رکھنے کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ بیجنگ کے ساتھ اس کے دیرینہ سیاسی اور معاشی تعلقات گہرے ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کار اب بھی ترقی پذیر صورتحال کے بارے میں محتاط ہیں۔
طالبان کے قبضے نے اسٹاک مارکیٹ پر بہت کم اثر ڈالا ہے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کونسل میں جنوبی اور وسطی ایشیا کی سابق سینئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے کہا گزشتہ بیس برسوں میں کوئی بھی امریکی انتظامیہ طالبان کی پاکستانی پناہ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔برطانوی اخبار ٹائمز نے پاکستان کے حوالے سے لکھاکہ مغرب کو بتا دیاگیاہے کہ طالبان کے ساتھ کام
کریں یا نوے کی دہائی کی خطرات دہرائیں۔ پاکستانی قومی سلامتی مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے خبردار کیا اگر افغانستان کے نئے رہنماؤں کے ساتھ کام نہ کیا گیا تو ایک اور نائن الیون کاخطرات ہوسکتے ہیں۔معید یوسف نے کہا کہ میرے الفاظ نوٹ کرلیں اگر نوے کی دہائی کی غلطیاں دوبارہ کی گئیں،اور افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیاتو اس کا نتیجہ بالکل ویسا ہی ہوگا سیکورٹی خلا کو ناپسندیدہ عناصربھریں جو ہر کسی کو،پاکستان اور مغرب کو خطرے میں ڈالے گا۔دوسری طرف پاکستانی میڈیا میں قومی سلامتی مشیر کے دفتر سے جاری بیان کا حوالے سے کہا جارہاہے کہ برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب سے انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔