اسلام آباد( آن لائن )وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتے،افغان حکومت بلیم گیم سے بازرہے، بے بنیاد الزامات مسترد کرتے ہیں افغانستان موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تعمیری مذاکرات کرے، افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں جاری ہے پاکستان افغانستان کے فوجی قبضہ کا حمایتی نہیں،
افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتے وہ افغانوں کو خود دینی ہے ، باربار واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے، سی پیک منصوبہ دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، اسے نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں، سیرینا ہوٹل واقعہ، داسو ، جوہر ٹاؤن اور کوئٹہ حملے اسی کا شاخسانہ ہے لیکن سی پیک منصوبے پر کام جاری رہے گا۔ پیر کے روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم افغان امن عمل میں اہم اسٹیک ہولڈر ہیں، پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے، دوحا میں ہونے والے امن معاہدے میں پاکستان کا کردار اہم ہے، 6اگست کو سکیورٹی کونسل میں افغانستان سے متعلق بریفنگ ہوئی لیکن اس اجلاس میں پاکستان کو شرکت کا موقع نہ دیا گیا۔ بھارت اس مسئلے پر سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔ افغانستان سے متعلق بریفنگ کیلئے بھارت سے بطور سیکیورٹی کونسل کے موجودہ صدر رابطہ کیا لیکن بھارت نے مثبت ردعمل نہیں دیا،بھارت کی جانب سے ہماری درخواست کو قبول نہیں کیا گیا،بھارت کو سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے ایسا منفی رویہ زیب نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ بات چیت کے لیے سفارتی میکنزم موجود ہے۔ اگر افغانستان کو بطور ہمسایہ کوئی مسئلہ درپیش ہے تو موجودہ میکنزم کے ذریعے اٹھایا جائے۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے پائیدار امن کے لیے آگے بڑھا جائے افغان مسئلہ پر منہ پھیرنے کی نہیں بلکہ سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا جو تاثر دیا گیا وہ درست نہیں ہے۔ مجھے خدشہ ہے وہ یہ تسلیم نہیں کریں گے، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے
مقاصد امریکا اور عالمی برادری کے مقاصد کے ساتھ مماثل ہیں، افغانستان کے معاملے پر پاکستان، امریکا اور عالمی برادری ایک پیج پر ہیں، جو وہ چاہتے ہیں ہم بھی وہی چاہتے ہیں، وزیر اعظم ہمیشہ سے افغانستان کے سیاسی حل کی بات کرتے رہے ہیں، افغان مسئلے پر دنیا نے وزیراعظم عمران خان کے موقف کی تائید کی،
افغانستان میں ہمارا کردار معاونت کا ہے، ضامن کا نہیں، ہم افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتے وہ افغانوں کو خود دینی یے۔ باربار واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کو ہی کرنا ہے، ہم نے اسلام آباد میں افغان رہنماؤں کو مائنس طالبان کانفرنس کی
دعوت دی، اس کانفرنس کو افغان صدر اشرف غنی کی درخواست پر ملتوی کیا گیا، میں نے تحریری طور پر افغان وزیر خارجہ کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت دی تاکہ ہم اگر کوئی مسائل ہیں تو ان پر بات کر سکیں، دوسروں کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے،ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے پائیدار امن کے لیے آگے
بڑھا جائے، سلامتی کونسل اجلاس میں افغان نمائندے نے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کی۔ ہم افغان نمائندے کے پاکستان مخالف بیانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں لگایا جانے والا پیسہ کہاں استعمال ہوا، ہم افغان فورسز کی ناکامیوں کے ذمہ دار نہیں ہیں، پاکستان افغانستان کے فوجی قبضہ کا
حمایتی نہیں ہے، جب ہم سیاسی حل کی بات کرتے ہیں تو یہ عسکری قبضے کی ضد ہے، پاکستان نے مختلف فورمز پر واضح کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دارانہ بالترتیب انخلاء کی حمایت کرتا ہے، جب آپ افغانستان سے انخلا کر رہے ہیں تو وہاں ایک خلاء مت چھوڑیں، اس خلاء کا براہ راست فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھائیں گی۔ پاکستان افغانوں کا
صدیوں سے ایک سخی اور مہمان نواز میزبان رہا ہے، پاکستان اپنے وسائل سے افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے، عالمی برادری نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے حوالے سے ہماری کوئی مدد نہیں کی، بدقسمتی سے مزید افغانوں کی میزبانی کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سی پیک منصوبہ دنیا کی آنکھوں
میں کھٹکتا ہے، اسے نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں، سیرینا ہوٹل واقعہ، داسو ، جوہر ٹاؤن اور کوئٹہ حملے اسی کا شاخسانہ ہے لیکن سی پیک منصوبے پر کام جاری رہے گا، داسو واقعے پر پاکستان نے اپنی تحقیقات مکمل کر لیں ہیں، ہم اس پر اپنے چینی دوستوں سے مشاورت کررہے ہیں، مشاورت مکمل ہونے پر ہم ان تفصیلات کو بیان کریں گے۔