اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات ’’اقتدار کی مجبوریاں ‘‘ نے ماضی کے اوراق سے پردہ اٹھا دیا، وہ اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والے کئی ایسے واقعات کو عوام کے سامنے لائے ہیں جو اب تک سر بستہ راز تھے، روزنامہ جنگ میں رانا غلام قادرکی خبر کے مطابق کرنل اشفاق حسین کی مرتب کردہ جنرل اسلم بیگ کی سوانح حیات
184 صفحات پر مشتمل ہے جس میں بعض سنسنی خیز انکشافات ہیں،اب تک اسرار کے پردوں میں چھپے جن حقائق کو اس کتاب میں بے نقاب کیا گیا ہے ان کا تعلق سیاسی اور عسکری اور سفارتی پہلوئوں سے ہے۔انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ جنرل محمد ایوب خان نے 1960 میں ان اطلاعات پر دیر میں آپریشن کا حکم دیا کہ نواب آف دیر کے بیٹے خان آف جنڈال نے افغان حکومت کی ملی بھگت سے باجوڑ میں ایک افغان لشکر اکٹھا کر لیا ہے۔بعض رپورٹوں کے مطابق اس لشکر کی تعداد پچیس ہزار تھی، نواب آف دیر اور ان کے بیٹے خان آف جنڈال کو رسالپور لایا گیا اور بعد میں پتہ چلا کہ 25 ہزار کا لشکر جمع ہونے کی خبریں غلط تھیں۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کا تمغہ ملا لیکن میرا اندازہ ہے کہ غلط اطلاعات کی بنیاد پر یہ آپریشن کیا گیا حالانکہ مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ حل ہوسکتا تھا،یہی وہ غلطی ہے جو اس وقت سے لے کر اب تک دہرائی جارہی ہے۔جنرل اسلم بیگ نے کہا ہے کہ مشرقی پاکستان کے بارے میں شروع سے ہی جو دفاعی پالیسی اپنائی گئی وہ ناقص تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے 88 نشستیں حاصل کی تھیں جو کل نشستوں کا 28 فیصد بنتی تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کسی طرح بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کو تیار نہ تھے۔13فروری کو صدر یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ کو ڈھاکہ میں طلب کرنے کا اعلان کیا، 28 فروری کو بھٹو نے دھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے
قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی1985ء میں جنرل ضیاء نے نیا سیاسی نظام لانے کا ارادہ کیا تو مجھے اور حمید گل کو سیاسی تجزیاتی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ صاف ستھرے الیکشن کراکے اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے، اس عمل سے قوم آپ کو اچھے الفاظ
میں یاد رکھے گی، جنرل ضیاء نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ہو۔افغانستان کے تناظر میں اسلم بیگ کہتے ہیں کہ روس کی شکست اور پسپائی کے بعد افغان مجاہدین کو اپنی حکومت بنانے سے روکا گیا اور ایسی حکومت بنائی گئی جس میں مجاہدین افغانستان کا کوئی حصہ نہ رکھا گیا۔ شمالی اتحاد کی حکومت بنا دی گئی اور انہیں کابل لاکر اقتدار
سونپ دیا گیا گیا۔ دراصل روسیوں کے انخلاء کے بعد امریکا نے یو ٹرن لے لیا۔مجاہدین دہشت گرد کہے جانے لگے جو جیتی ہوئی قوت تھے۔ سازش کے تحت شمالی اتحاد کو اقتدار سونپ دینے کی تیاریاں شروع ہوئیں جو خانہ جنگی کا سبب بنیں، یہ سارا کھیل ایک فریب تھا جو امریکہ نے کھیلا۔ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہو اور پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کے
ممالک پرامن ہوں مستحکم ہوں۔ایک سوال پر اسلم بیگ نے کہا کہ ہم نے 1965ء اور1971ء کی جنگیں کسی فوجی منصوبے کے بغیر لڑیں۔ اسلم بیگ سیاسی رہنمائوں سے معاملات کے بارے میں کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں مجھے محترمہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا،یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا1996ء میں پیپلز پارٹی کے اپنے بنائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے بی بی کی
حکومت کو فارغ کر دیا تو اس کے بعد بی بی اور ان کے مشیر میرے خلاف سازش میں لگ گئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے عام انتخابات کرائے جو ڈی اے والوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور ایک بار پھر عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔اس لئے کہ (ق) لیگ اور ایم کیو ایم نے مخالفت کی جن کے خلاف عمران خان نے سیاسی وار گیم شروع کر دی تھی۔
2008ء میں مشرف نے 2002ء کے انتخابات جیسی تیاریاں کر رکھی تھیں اور پراعتماد تھے کہ وہی کامیاب ہوں گے لیکن جنرل کیانی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ فوج الیکشن کے معاملات سے لاتعلق رہے گی جس کے نتیجے میں عوام نے کسی دبائو کے بغیر اپنی مرضی سے ووٹ دیئے۔عمران خان کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ عمران کی سیاسی تنہائی بڑی وجہ ان کی جلد بازی اور غیر
ضروری اقدامات ہیں، وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بدنام اور رسوا کرنے کے عمل میں بہت دور تک جاچکے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی سیاسی اساس یعنی پارلیمنٹ کو بھی بے وقت کرنے کا باعث بنے ہیں۔عمران خان نے دھرنا دیا تو وہ برابر ’’ ایمپائر کی انگلی‘‘ کے انتظار میں رہے کہ کب اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرتی ہے اور نواز شریف کی حکومت گرے۔ نئے الیکشن ہوں اور عمران خان کامیاب ہوں اور حکومت بنائیں۔