اسلام آباد(آن لائن)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے مجوزہ قانون پر بحث کے دوران سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں جبکہ وزیر قانون فروغ نسیم اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ہے۔وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اٹھائے گئے
سوالات کے جواب اگلے اجلاس میں دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ ہمیں مسلم لیگ ن کی حکومت سے ورثے میں ملا ہے،مسلم لیگ ن کی حکومت نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے حکم پر کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا جارہا ہے،اگر فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو بھارت اس بنیاد پر پاکستان پر پابندیوں کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کرسکتا ہے۔اجلاس میں انسدادزیادتی تحقیقاتی بل پر بھی بحث ہوئی جبکہ کمیٹی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی نقول اراکین کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے متعلق بل پر مزید بحث اگلے اجلاس تک ملتوی کردی۔دوران بحث مسلم لیگ ن کے سنیٹر اعظم نزیر تارڈ نے کہا کہ اگر کلبھوشن کو چھوڑنا ہے تو ویسے ہی چھوڑ دے، مجوزہ قانون میں کلبھوشن کو کلین چٹ دی گئی ہے جبکہ کمیٹی کے چیئر مین سنیٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون منظور نہ کرنے پر بھارت کو رعایت دینے کی بات درست نہیں۔کمیٹی کا اجلاس سنیٹر علی ظفر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔بھارتی جاسوس کلبھوشن کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے سے متعلق مجوزہ قانون کے بل پر بحث کے دوران وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وسیع قومی مفاد میں اس قانون سازی کو معمول کی کارروائی نہ سمجھیں۔ علی ظفر نے کہاکمیٹی مضبوط اور درست قانون سازی چاہتی ہے۔
اس دوران مصدق ملک اور فروغ نسیم میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جبکہ سنیٹر اعظم نزیر تارڈ نے کہا آپ ویسے ہی کہہ دیں کہ کلبھوشن کو چھوڑنا ہے۔علی ظفر نے کہا پاکستان خودمختار ملک ہے،حکومت کا تجویز کردہ قانون دراصل غلطی کا اعتراف ہے،بھارتی جاسوس کو اتنا عہدہ کیوں دیا کہ اسکے لئے قانون بنائیں؟قانون بنانا ہے
تو سب کیلئے ایک جیسا بنائیں۔مصدق ملک نے کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے،فروغ نسیم نے کہا کہ بل آئین کیخلاف کیسے ہے یہ سمجھائیں، اعظم نزیر تارڈ نے کہا کہ صرف غیر ملکیوں کو اپیل کا حق دینے پر اعتراض ہے۔فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو اپیل کا حق نہیں دے رہے،معذرت سے کہتا ہوں آپ ممبران نے بل پڑھا ہی
نہیں۔اعظم نزیر تارڈ نے کہا کہ ہم اپیل کی نہیں قانون میں دیے گئے عدالتی جائزے کی بات کر رہے ہیں،فروغ نسیم نے کہا کہ آپ لوگ جان بوجھ کر ایک ہی سوال بار بار کر رہے ہیں۔مصدق ملک نے کہا کہ میرا سوال تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا،آپ نے بات نہیں سننی تو کیا میں چلا جاؤں؟۔فروغ نسیم نے کہا کہ ایک سوال بار بار نہیں ہوگا،
جس پر مصدق ملک نے کہا کہ کیا آپ کمیٹی کے چیئرمین ہیں جو حکم دے رہے ہیں؟۔فروغ نسیم نے کہا کمیٹی کا چیئرمین نہیں لیکن آپکا نوکر بھی نہیں،آپ لوگ صرف میڈیا پلے کر رہے ہیں۔کامران مرتضٰی نے کہا کمیٹی اجلاس کو ٹی وی پروگرام نہ بنائیں۔وزیر قانون نے کہا آج سب کے سوال سن لیتا ہوں جواب اگلے اجلاس میں دونگا۔پیپلز
پارٹی کے مصطفٰی نواز کھوکھر نے بھی زیر غور بل کے بارے سوالات اٹھائے اور کہا کہ ملک میں رائج موجودہ قانون ویانا کنونشن کے مطابق ہی ہے۔سنیٹر رضا ربانی نے سوال اٹھایا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کے اثرات کیا ہونگے؟،کامران مرتضٰی نے کہا کہ یہ بل قانون بنا تو غیرملکیوں کے حقوق پاکستانیوں سے
زیادہ ہونگے، اعظم نزیر تارڈ نے کہا قانون میں کلبھوشن جیسے افراد کو کلین چٹ دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے، فوجی عدالتوں میں عام طور پر شواہد اور گواہان کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا، حساس معاملہ ہے اوپن فورم پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا، ا?پ ویسے ہی کہ دیں کہ کلبھوشن کو چھوڑنا ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ عالمی عدالت
انصاف نے 18 مئی 2017 کو عبوری حکم جاری کیا،موجودہ حکومت کو کلبھوشن کیس اور عبوری حکم ورثے میں ملا تھا، ن لیگ نے ویانا کنوشن کے تحت کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی تھی۔سنیٹر مصدق ملک نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی کاپی ہمیں کیوں نہیں دی گئی؟۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس
میں فیصلے کی کاپی ممبران کو فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔فروغ نسیم نے کہا کہ قونصلر رسائی نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کو اپیل کا حق دینے کی ہدایت کی گئی۔فاروق ایچ نائک نے کہا ممبران فیصلہ پڑھے بغیر کیسے بل پر بحث کر سکتے ہیں؟۔وزیر قانون نے کہا آئندہ اجلاس میں فیصلے کی کاپی ممبران کو فراہم کر دینگے۔فاروق
ایچ نائک نے کہا عالمی عدالت نے کہا تھا اگر ضروری ہو تو قانون سازی کریں،عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو قانون سازی کا پابند نہیں کیا۔اعظم نزیر تارڈ نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا حکومت کلبھوشن پر مہربان کیوں ہے،فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے پاکستانیوں کو اپیل کا حق کیوں نہیں ہے؟۔فاروق ایچ نائک نے سوال اٹھایا کہ
کلبھوشن کو سزا آرمی ایکٹ کے تحت ہوئی تو ا?رمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی؟۔حکومتی سنیٹر اعظم سواتی نے کہا معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھنا ہوگا۔فاروق نائک نے کہا کہ نظرثانی کی اجازت قانون کے مطابق ہی مل سکتی ہے،اعظم سواتی نے کہا ملکی خودمختاری کے تناظر میں ان نکات کو دیکھ کر مطمئن کریں۔
وزیر قانون نے کہا اراکین کے سوالات اگر لکھ کر دیدیں تو بہت آسانی ہوجائے گی،بہت سے ارکان کے سوالات سمجھ ہی نہیں پایا،مناسب ہوگا اگر ان کیمرا اجلاس رکھ لیں تاکہ کھل کر بات ہو سکے۔فاروق نائک نے کہا مجوزہ قانون کا سیکشن تین ملزم کو بری کرنے کیلئے ہے، قونصلر رسائی نہ ملنے پر ملزم کہہ سکتا ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں
ہوا، اور ملزم کلبھوشن کے بیان کی بنیاد پر اسکی سزا کالعدم ہو جائے گی۔وزیر قانون نے کہا قانون نہ بنایا تو بھارت سکیورٹی کونسل میں ہمارے خلاف قرارداد لائے گا،بھارت پاکستان کیخلاف پابندیاں لگوانے کی کوشش کرے گا،بھارت پاکستان کیخلاف توہین عدالت کارروائی بھی کر سکتا ہے۔اعظم نزیر تارڈ نے کہا ایسا قانون بنانا ہے تو
کلبھوشن کو ویسے ہی بھارت کے حوالے کر دیں، رضا ربانی نے کہا عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی،امریکہ کیخلاف سلامتی کونسل میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کی قرارداد آئی تھی،امریکہ نے اپنے خلاف قرارداد ویٹو کر دی تھی،پاکستان بھی اپنے قریبی دوست کے ذریعے قرارداد ویٹو کروا
سکتا ہے۔کمیٹی میں انسداد زیادتی تحقیقاتی بل پر بھی بحث ہوئی۔پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں زیادتی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں،مجوزہ قانون کے تحت خصوصی عدالتیں چار ماہ میں فیصلے کی پابند ہونگی،زیادتی کے تمام ٹرائل ان کیمرا ہونگے، سماجی کارکنان زیادتی کی شکار خواتین کا ساتھ دے سکیں
گے،زیادتی کی شکار خواتین کا ٹو فنگر میڈیکل ٹیسٹ نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ خواتین کی کردار کشی نہیں ہوسکے گی خاتون کے کسی کیساتھ تعلقات کا ذیادتی کے کیس پر اثر نہیں ہوگا،زیادتی کے مقدمات میں راضی نامہ نہیں ہو سکے گا۔فروغ نسیم نے کہا کئی کیسز میں مقدمہ درج کرانے کیلئے جانے والی خواتین کیساتھ پولیس نے
زیادتی کی،مجوزہ قانون کے تحت اب ذیادتی کے مقدمات کی تفتیش جے آئی ٹی کرے گی۔سنیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا سندھ اور بلوچستان میں خواتین کو تھانے جانے کی اجازت نہیں، سندھ اور بلوچستان میں ایسے کیسز جرگے میں جاتے ہیں۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا متاثرہ خاتون کی جگہ کوئی اور مقدمہ درج کروا سکتا ہے؟۔وزیر قانون نے
کہا کرائسس سیل معلومات ملنے پر کارروائی کر سکے گا۔ثمینہ ممتاز نے کہا کرائسس سیل متاثرہ خاتون سے رابطہ کرتا ہے اور وہ انکار کر دیتی ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ متاثرہ خواتین کو سامنے آنا ہوگا۔اعظم نزیر تارڈ نے کہا گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی خواتین کے مقدمات کرتا رہا ہوں،نکاح کے بعد بھی لڑکی گھر والوں
کے دباؤ پر اغواء کا کہہ دیتی ہے،قانون سازی میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،ایک دو واقعات پر جذباتی ہوکر قانون سازی نہیں کرنی چاہیے،فیصل آباد میں لین دین تنازع پر زیادتی کے مقدمات درج ہوتے ہیں،فیصل آباد پولیس نے ایسا پورا گینگ پکڑا ہے۔علی ظفر نے کہا اگلے اجلاس میں قانون کا شق وار جائزہ لیکر
حتمی شکل دینگے۔اعظم نزیر تارڈ نے کہا چاہتے ہیں قانون کا غلط استعمال روکا جائے، مصدق ملک نے کہا کاروکاری پر اگر سزا نہیں ہے تو قانون میں تجویز کرنی چاہیے،اعظم نزیر تارڈ نے کہاجعلی مقدمہ بازی کی وجہ سے ذیادتی کی شکار خواتین کا نقصان ہو رہا ہے۔ثمینہ ممتاز نے کہا مجوزہ قانون میں خواتین کیساتھ بچوں، خواجہ سراؤں اور لڑکوں کو بھی شامل کیا جائے۔بل پر مزید بحث اگلے اجلاس تک ملتوی کردی گئی۔