واشنگٹن(این این آئی) 11 ستمبر 2001 کے بعد فوجی خدمات سرانجام دینے والے 30177 فوجیوں نے خود کشی کی ہے جب کہ دو جنگوں میں مرنے والے فوجی اہلکاروں کی تعداد صرف 7057 ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ اعداد و شمار بران یونیورسٹی کے کوسٹ آف وار پروجیکٹ کی نئی رپورٹ میں دیے گئے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی کہ جب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو رہا ہے اور امریکی کانگریس میں عرصہ دراز بعد صدر کے جنگ کرنے کے اختیارات کے خاتمے پر بحث بھی ہو رہی ہے۔بران یونیورسٹی کی یہ تحقیق فوج میں خدمات سر انجام دینے والوں کو درپیش ذہنی، اخلاقی و جنسی صدموں، فوج کے اندر طاقت کے استعمال کا کلچر، بندوقوں تک کھلی رسائی اور واپس عام شہری زندگی میں شامل ہونے میں درپیش مشکلات کی نشان دہی کرتی ہے۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ریٹائرڈ فوجیوں میں خود کشی کی شرح عام شہریوں سے 1.5 گنا زیادہ ہے جب کہ نائن الیون کے بعد 18 سے 35 سال کی عمر کے فوجیوں میں تو یہ شرح عام شہریوں سے 2.5 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو وہ بھی عام شہریوں سے دوگنی سے زائد ہے۔رپورٹ کے مطابق سابق فوجیوں میں خود کشی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری اور قانون سازی کی گئی لیکن تعداد میں پھر بھی کمی نہیں آئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2017 سے 2018 کے دوران 36 سابق فوجیوں نے خود اپنی جان لے لی۔بران یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق قانون سازوں کو امید ہے کہ گزشتہ سال منظور کیے گئے نئے منصوبے جن کی توجہ نائن الیون کے بعد فوج میں خدمات
انجام دینے والے اور دیہات میں مقیم اہلکاروں پر ہے، کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ریٹائرڈ فوجیوں کی اکثریت نے نائن الیون کے بعد فوجی خدمات سرانجام نہیں دی ہیں لیکن جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا ہے ان میں خود کشی کی شرح 2005 سے 2017 کے دوران ہر ایک لاکھ میں 32.3 رہی ہے جب کہ 2018 میں 45.9 تک جا پہنچی ہے۔درج بالا اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ان جنگوں میں شرکت کرنے والے نفسیاتی و ذہنی مسائل کی زد پر ہیں۔